اسلام آباد —
اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے کہا ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف اپنے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت میں آئندہ ہفتے حاضر ہوں جس میں ان پر آئین معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔
اُدھر وکلا صفائی کے دلائل پر خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ اگر اس عدالت پر (ملزم کے وکلا کو) اعتماد نہیں تو وہ یہ مقدمہ نہیں سن سکتے۔
تاہم بعد میں عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ جسٹس عرب پرویز مشرف کے خلاف غداری کی کارروائی سے الگ نہیں ہوئے بلکہ وکیل صفائی کے رویے کی وجہ سے عدالت ایک دن کے لیے برخاست ہوئی تھی۔
استغاثہ کی ٹیم کے ایک رکن حسن مرتضیٰ مان کا کہنا تھا کہ ’’ہوتا ایسا ہے کہ اگر کچھ وکلا عدالت میں بدتمیزی کر دیں تو عدالت مقدمہ نہیں چھوڑ دیتی بلکہ اُس وقت تک کے لیے کارروائی ملتوی کر دیتی ہے تاکہ اگر عدالت کو غصہ آیا ہے تو اس کا اثر مقدمے پر نا پڑے۔‘‘
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعرات کو عدالت کی طرف سے جو حکم جاری کیا گیا وہ اُن کے بقول وکلا صفائی کے دلائل سے غلط معنی اخذ کرتے ہوئے دیا گیا۔
’’(عدالت) نے یہ تصور کر لیا کہ ملزم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ عدالت میں نہیں آئے گا، حالانکہ دلائل یہ دیئے گئے تھے کہ سلامتی کے خدشات کے باعث شاید اُن کے لیے آنا ممکن نا ہو۔ عدالت کو یہ بھی بتایا کہ سینیٹ کی کارروائی کے دوران ممبران نے یہاں تک کہا کہ عدالت جو ہے وہ کسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔۔۔۔۔ محتاط انداز میں ہم نے یہ کہا کہ ہم مطمیئن نہیں ہیں۔‘‘
خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو 31 مارچ کو سماعت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے جس میں توقع کی جارہی ہے کہ سابق فوجی صدر کے خلاف 2007ء میں آئین معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔
پرویز مشرف کے وکلا یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے موکل کے اس فیصلے میں اس وقت کے سیاسی و عسکری رہنما بھی شامل تھے اور صرف پرویز مشرف کے خلاف کارروائی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگی۔
پرویز مشرف یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی فوج ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے پر نالاں ہے اور انہیں فوج کی حمایت حاصل ہے۔
اُدھر وکلا صفائی کے دلائل پر خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ اگر اس عدالت پر (ملزم کے وکلا کو) اعتماد نہیں تو وہ یہ مقدمہ نہیں سن سکتے۔
تاہم بعد میں عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ جسٹس عرب پرویز مشرف کے خلاف غداری کی کارروائی سے الگ نہیں ہوئے بلکہ وکیل صفائی کے رویے کی وجہ سے عدالت ایک دن کے لیے برخاست ہوئی تھی۔
استغاثہ کی ٹیم کے ایک رکن حسن مرتضیٰ مان کا کہنا تھا کہ ’’ہوتا ایسا ہے کہ اگر کچھ وکلا عدالت میں بدتمیزی کر دیں تو عدالت مقدمہ نہیں چھوڑ دیتی بلکہ اُس وقت تک کے لیے کارروائی ملتوی کر دیتی ہے تاکہ اگر عدالت کو غصہ آیا ہے تو اس کا اثر مقدمے پر نا پڑے۔‘‘
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعرات کو عدالت کی طرف سے جو حکم جاری کیا گیا وہ اُن کے بقول وکلا صفائی کے دلائل سے غلط معنی اخذ کرتے ہوئے دیا گیا۔
’’(عدالت) نے یہ تصور کر لیا کہ ملزم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ عدالت میں نہیں آئے گا، حالانکہ دلائل یہ دیئے گئے تھے کہ سلامتی کے خدشات کے باعث شاید اُن کے لیے آنا ممکن نا ہو۔ عدالت کو یہ بھی بتایا کہ سینیٹ کی کارروائی کے دوران ممبران نے یہاں تک کہا کہ عدالت جو ہے وہ کسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔۔۔۔۔ محتاط انداز میں ہم نے یہ کہا کہ ہم مطمیئن نہیں ہیں۔‘‘
خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو 31 مارچ کو سماعت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے جس میں توقع کی جارہی ہے کہ سابق فوجی صدر کے خلاف 2007ء میں آئین معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔
پرویز مشرف کے وکلا یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے موکل کے اس فیصلے میں اس وقت کے سیاسی و عسکری رہنما بھی شامل تھے اور صرف پرویز مشرف کے خلاف کارروائی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگی۔
پرویز مشرف یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی فوج ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے پر نالاں ہے اور انہیں فوج کی حمایت حاصل ہے۔