اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی سربراہ کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انھیں 31 مارچ کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
جمعہ کو ہونے والی سماعت میں بھی پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کے وکلاء نے تین رکنی بینچ سے درخواست کی کہ ان کے موکل کی سلامتی سے متعلق وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ہونے والے تازہ ’سکیورٹی الرٹ‘ کے تناظر میں انھیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔
سابق صدر کی وکلاء ٹیم میں شامل فیصل چوہدری نے جمعہ کو خصوصی عدالت کے حکم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’31 مارچ 2014ء کی صبح اگر پرویز عدالت میں آنے سے انکار کریں تو پھر انسپکٹر جنرل پولیس کو کہا کہ وہ نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کریں، اُس سے پہلے نا قابل ضمانت وارنٹ کو استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔‘‘
فیصل چوہدری نے بتایا کہ سابق صدر کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرنے کے حکم کو اعلٰی عدلیہ میں چیلنج کیا جائے گا۔
’’اس حکم نامے کا قانونی جائزہ لینے کے بعد بالکل چیلنج کریں گے۔‘‘
اس سے قبل پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ وکلائے صفائی نے عدالت میں یہ دلائل دیئے کہ سابق صدر کی سکیورٹی کی جانچ پڑتال کے لیے وقت درکار ہے اس لیے انھیں استثنیٰ دیا جائے۔
’’سکیورٹی دستے کا جو انچارج ہے اس نے ایک سرٹیفیکیٹ دینا ہے کہ میں نے سب چیک کر لیا ہے اور سکیورٹی خدشات کے بارے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ یہ جو سب کی اسکینگ کرنی ہے۔ ۔ ۔ وہ 72 گھنٹے میں نہیں ہو سکی اس کام پر ایک دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وکیل استغاثہ نے عدالت سے کہا کہ اگر مشرف اس عدالت میں نہیں آ سکتے تو مقدمہ اڈیالہ جیل یا کسی اور جگہ بھی چلایا جا سکتا ہے اور عدالت فرد جرم ملزم کی غیر موجودگی میں ان کے مجاز وکیل کو بھی پڑھ کر سنا سکتی ہے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جسے بعد ازاں جمعہ کی سہ پہر سنایا گیا۔
وفاق کی درخواست پر پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کرنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے مقدمے کی کارروائی گزشتہ 24 دسمبر سے خصوصی عدالت میں شروع ہوئی تھی۔
تاہم اب تک ہونے والے 20 سے زائد سماعتوں میں سابق فوجی صدر صرف ایک بار ہی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
دو جنوری کو اپنی رہائش گاہ سے عدالت جاتے ہوئے راستے میں اچانک سینے میں تکلیف کے باعث پرویز مشرف راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال منتقل ہو گئے تھے جہاں وہ اب بھی زیر علاج ہیں۔
رواں ہفتے ہی سابق صدر کے وکلاء نے خصوصی عدالت میں وزارت داخلہ کا ایک خط پیش کیا تھا جس میں سکیورٹی اداروں کو مطلع کیا گیا تھا کہ پرویز مشرف پر جان لیوا حملہ ہو سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق جمعہ کو راولپنڈی کے اسپتال سے اسلام آباد میں خصوصی عدالت تک جانے والے راستوں پر ڈیڑھ ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔
جمعہ کو ہونے والی سماعت میں بھی پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کے وکلاء نے تین رکنی بینچ سے درخواست کی کہ ان کے موکل کی سلامتی سے متعلق وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ہونے والے تازہ ’سکیورٹی الرٹ‘ کے تناظر میں انھیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔
سابق صدر کی وکلاء ٹیم میں شامل فیصل چوہدری نے جمعہ کو خصوصی عدالت کے حکم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’31 مارچ 2014ء کی صبح اگر پرویز عدالت میں آنے سے انکار کریں تو پھر انسپکٹر جنرل پولیس کو کہا کہ وہ نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کریں، اُس سے پہلے نا قابل ضمانت وارنٹ کو استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔‘‘
فیصل چوہدری نے بتایا کہ سابق صدر کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرنے کے حکم کو اعلٰی عدلیہ میں چیلنج کیا جائے گا۔
’’اس حکم نامے کا قانونی جائزہ لینے کے بعد بالکل چیلنج کریں گے۔‘‘
اس سے قبل پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ وکلائے صفائی نے عدالت میں یہ دلائل دیئے کہ سابق صدر کی سکیورٹی کی جانچ پڑتال کے لیے وقت درکار ہے اس لیے انھیں استثنیٰ دیا جائے۔
’’سکیورٹی دستے کا جو انچارج ہے اس نے ایک سرٹیفیکیٹ دینا ہے کہ میں نے سب چیک کر لیا ہے اور سکیورٹی خدشات کے بارے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ یہ جو سب کی اسکینگ کرنی ہے۔ ۔ ۔ وہ 72 گھنٹے میں نہیں ہو سکی اس کام پر ایک دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وکیل استغاثہ نے عدالت سے کہا کہ اگر مشرف اس عدالت میں نہیں آ سکتے تو مقدمہ اڈیالہ جیل یا کسی اور جگہ بھی چلایا جا سکتا ہے اور عدالت فرد جرم ملزم کی غیر موجودگی میں ان کے مجاز وکیل کو بھی پڑھ کر سنا سکتی ہے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جسے بعد ازاں جمعہ کی سہ پہر سنایا گیا۔
وفاق کی درخواست پر پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کرنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے مقدمے کی کارروائی گزشتہ 24 دسمبر سے خصوصی عدالت میں شروع ہوئی تھی۔
تاہم اب تک ہونے والے 20 سے زائد سماعتوں میں سابق فوجی صدر صرف ایک بار ہی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
دو جنوری کو اپنی رہائش گاہ سے عدالت جاتے ہوئے راستے میں اچانک سینے میں تکلیف کے باعث پرویز مشرف راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال منتقل ہو گئے تھے جہاں وہ اب بھی زیر علاج ہیں۔
رواں ہفتے ہی سابق صدر کے وکلاء نے خصوصی عدالت میں وزارت داخلہ کا ایک خط پیش کیا تھا جس میں سکیورٹی اداروں کو مطلع کیا گیا تھا کہ پرویز مشرف پر جان لیوا حملہ ہو سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق جمعہ کو راولپنڈی کے اسپتال سے اسلام آباد میں خصوصی عدالت تک جانے والے راستوں پر ڈیڑھ ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔