پاکستان کے صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ان کا ملک افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
یہ بات انھوں نے تاجکستان کے ایک پارلیمانی وفد سے گفتگو میں کہی جس نے ان سے بدھ کو اسلام آباد میں ملاقات کی۔
سرکاری بیان کے مطابق صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ افغانستان، پاکستان اور دنیا کے امن کے لیے بہت اہم ہے۔
پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ وہ جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں مصالحتی کوششوں کی حمایت اور اپنا تعاون جاری رکھے گا اور اس نے گزشتہ سال جولائی میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین پہلی براہ راست بات چیت کی میزبانی بھی کی تھی۔
یہ مذاکرات ایک ہی دور کے بعد بوجوہ معطل ہو گئے جو اب تک بحال نہیں ہو سکے ہیں۔
اس عمل کی بحالی کے لیے پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین کے نمائندوں پر مشتمل چار فریقی گروپ اب تک چار مشاورتی اجلاس کر چکا ہے اور گزشتہ ماہ کے اواخر میں ہونے والے اجلاس میں یہ توقع ظاہر کی گئی تھی کہ مذاکراتی عمل رواں ماہ بحال ہو سکتا ہے۔
لیکن طالبان نے اپنی شرائط کا اعادہ کرتے ہوئے ان کی منظوری تک بات چیت میں شامل نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی طالبان سمیت دیگر تمام فریقین سے مصالحتی عمل میں شریک ہونے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں امن پورے خطے کی خوشحالی کے بہترین مفاد میں ہے۔
سلامتی کونسل میں افغانستان سے متعلق ہونے والی ایک بحث میں ان کا کہنا تھا کہ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ بین الاقوامی برادری اس بات پر متفق ہو چکی ہے کہ افغانستان میں امن کے حصول کا واحد راستہ سیاسی تصفیہ ہی ہے۔
انھوں نے بھی اپنے ملک کے اس موقف کو دہرایا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے امن کے لیے بہت ضروری ہے۔
مبصرین مصالحتی عمل کی بحالی پر یہ کہہ کر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ طالبان کے آپسی اختلافات کی وجہ سے اس عمل میں کون سے گروپ شریک ہوں گے اور کون سے نہیں یہ ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔
لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ عمل جتنا جلد شروع ہو گا اتنا ہی امن کی بحالی کے لیے بہتر ہے، بصورت دیگر آنے والے مہینوں میں افغانستان کو ایک بار پھر شدت پسندوں کی مزید مہلک کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔