رسائی کے لنکس

پاک افغان سرحد کی نگرانی موثر بنانے کے لیے حکومت پر زور


سرحد کے قریب تعینات ایک پاکستانی اہلکار (فائل فوٹو)
سرحد کے قریب تعینات ایک پاکستانی اہلکار (فائل فوٹو)

حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرحد کی نگرانی کے لیے دونوں ملکوں کو ایک متفقہ لائحہ عمل بنانا ہوگا۔

پاکستان کے ایوان زیریں "قومی اسمبلی" نے حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع سرحد کی نگرانی کو مؤثر بنانے کے لیے اقدام کرے۔

منگل کو ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ دہشت گرد حملوں، غیر قانونی طور پر سرحد کے آر پار نقل و حرکت اور غیر قانونی تجارت کی روک تھام کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کی سکیورٹی بڑھانا از حد ضروری ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زائد طویل سرحد ہے۔ چند باقاعدہ گزرگاہوں کے علاوہ کئی ایک مقامات ایسے بھی ہیں جنہیں مشتبہ شدت پسند اور جرائم پیشہ عناصر سرحد کے آر پار نقل و حرکت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اسلام آباد، کابل پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ سرحد پر اپنی جانب نگرانی کے نظام کو مزید فعال اور موثر بنائے اور اس مطالبے میں شدت جون 2014ء میں قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف شروع کیے گئے فوجی آپریشن کے بعد آئی تھی۔

سیاسی و عسکری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سرحد کی موثر نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے شدت پسند فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد سرحد پار افغانستان میں راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔

مزید برآں دونوں ملک اپنے ہاں ہونے والے اکثر دہشت گرد حملوں کا الزام سرحد پار سے آنے والے شدت پسندوں پر عائد کرتے رہے ہیں اور یہ معاملہ دونوں کے مابین تعلقات میں تناؤ کا سبب بھی بنتے رہے ہیں۔

حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرحد کی نگرانی کے لیے دونوں ملکوں کو ایک متفقہ لائحہ عمل بنانا ہوگا۔

"اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں طرف رہنے والے رشتے دار بھی ہیں، ایک زبان بولتے ہیں، ایک کلچر ہے لیکن اسی آڑ میں بہت سارے دہشت گرد آر پار جاتے ہیں جو دونوں ملکوں میں تباہی کرتے ہیں لہذا اس (سرحد) کا انتظام کرنا بہت اہم ہے اور دونوں ملکوں کو آپس میں مفصل بات چیت کر کے اس کا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔"

پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ اس نے سرحد پر اپنی جانب ڈیڑھ سو سے زائد سکیورٹی چوکیاں بنا رکھی ہیں جب کہ افغانستان کی طرف ان کی تعداد اس کے مقابلے میں بہت ہی کم بتائی جاتی ہے۔ افغان قیادت اس ضمن میں اپنے تعاون کا یقین تو دلاتی آئی ہے لیکن تاحال کوئی مؤثر اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔

منگل کو ہی پاکستانی وزارت داخلہ کے لیے پارلیمانی سیکرٹری مریم اورنگزیب نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ حکومت سرحد پر نگرانی کو بڑھانے کے مزید اقدام کر رہی ہے جس میں صدر مملکت کو بھیجی گئی ایک دستاویز بھی شامل ہے جس کے تحت سرحد پر نقل و حرکت پر وفاقی تحقیقاتی ادارے "ایف آئی اے" کے قواعد کا اطلاق کیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG