رسائی کے لنکس

خیبر پختونخوا کی مساجد میں سرکاری امام تعینات کرنے کا منصوبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر حبیب الرحمن کا کہنا تھا کہ اس منصوبے میں اس بات کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ یہ مساجد کے پیش امام سرکاری بیانیے کو لے کر چلیں گے۔

خیبر پختونخوا کی حکومت نے انتہا پسندی کے تدارک کے لیے ایک نئے منصوبے پر کام شروع کیا ہے جس کے تحت صوبے کی مساجد میں سرکاری پیش امام اور خطبا کا تقرر کیا جائے گا۔

مذہبی امور کے صوبائی وزیر حبیب الرحمٰن نے اتوار کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے وضع کردہ قومی لائحہ عمل کے تناظر میں صوبائی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ نے یہ تجویز دی تھی جس پر عمل کرتے ہوئے 20 روز میٰں صوبے بھر کی مساجد کا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے۔

ایک عرصے سے مختلف سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبات سامنے آتے رہے کہ مذہبی منافرت کے خاتمے اور انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے مسجد اور منبر کو موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر حبیب الرحمن کا کہنا تھا کہ اس منصوبے میں اس بات کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ یہ مساجد کے پیش امام سرکاری بیانیے کو لے کر چلیں گے۔

قبائلی علاقوں میں غیر سرکاری تنظیموں کے ایک اتحاد کے سربراہ اور سرگرم سماجی کارکن زر علی آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس تجویز کو خوش آئند قرار دیا لیکن ان کے نزدیک اس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں سے وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تقرریاں انتہائی اہم ہیں۔

"اگر حکومت سنجیدہ رہتے ہوئے ایسے فیصلے کرتے ہی تو ہم اس کو سراہتے ہیں لیکن صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور اس کے ساتھ اتحاد میں جماعت اسلامی بیٹھی ہے اگر میرٹ کی بنیاد پر یہ تقرریاں نہ ہوئیں تو ایک مکتبہ فکر کے لوگ مساجد پر قبضہ کر لیں گے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو عسکریت پسندی اور بڑھے گی۔"

ایسے ہی خدشات کا اظہار صوبے میں حزب مخالف کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن اسمبلی مفتی فضل غفور نے بھی کیا۔

ان کے خیال میں صوبائی حکومت دہشت گردی و عسکریت پسندی پر قابو پانے میں مبینہ طور پر ناکام رہی ہے اور ان ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ اب ایک نئے معاملے کو چھیڑنے جا رہی ہے۔

"ایسا نہیں ہے کہ جو موجودہ خطبا حضرات ہیں ان کی قابلیت میں کوئی کمی ہے اس طرح کی کوئی بات نہیں ہے یہ ایک اور معاملے کو چھیڑنے کے مترادف ہے، انھوں نے اپنی موجودہ پالیسیوں سے کیا حاصل کیا ہے یہ ناکام ہوئے ہیں۔"

تاہم صوبائی وزیر برائے مذہبی امور حبیب الرحمن ان خدشات اور الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مساجد میں امامت کے معاملے پر موروثیت چھائی ہوئی ہے اور ضروری ہے کہ اس کا خاتمہ کیا جائے۔

"علما سیاسی جماعتوں میں تقسیم نہیں ہیں موروثیت چلتی آ رہی ہے اس کا بیٹا اس کا نواسہ یہ طریقہ چلتا آ رہا ہے ضروری نہیں کہ کوئی امام سیاسی جماعت کا بندہ ہو۔"

ان کا کہنا تھا کہ یہ تقرریاں میرٹ اور باضابطہ طریقہ کار کے تحت ہوں گی اور یہ پیش امام پابند ہوں گے کہ وہ کسی بھی ایسے بیانیے کی ترجمانی نہ کریں جو ریاست کے بیانیے کے برخلاف ہو۔

XS
SM
MD
LG