کراچی میں رینجرز کی قیادت میں جاری آپریشن کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں اور پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ شہر میں تشدد کی کارروائیوں میں 60 فیصد سے زائد کمی آئی ہے۔
سندھ پولیس کی طرف سے جاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں کی جانے والی کارروائیوں میں گیارہ سو سے زائد مشتبہ افراد مارے گئے ہیں۔
کراچی میں جاری آپریشن کے دوران پولیس کے 250 افسر و جوان بھی ہلاک ہوئے، جن میں دو سینیئر سپریٹینڈنٹ اور چار ڈپٹی سپریٹینڈنٹ پولیس بھی شامل ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مارے جانے 1171 افراد میں سے 282 دہشت گردی میں جب کہ 841 ڈکیتی اور 10 بھتہ خوری میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔
تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد پانچ ستمبر 2013 کو کراچی میں آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق کارروائیوں کے دوران 64 ہزار سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا، جن کے قبضے سے بھاری مقدار میں گولہ و بارود، اسلحہ اور خودکش حملوں میں استعمال ہونے والی جیکٹس بھی برآمد ہوئیں۔
کراچی میں رینجرز کی قیادت میں جاری آپریشن کے بعد حکام کے مطابق شہر میں امن و امان کی صورت حال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
تاہم شہر کی ایک بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے رینجرز کی کارروائیوں پر یہ کہہ کر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس میں اُن کی جماعت کے کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لیکن وفاقی حکومت اور خود رینجرز کی طرف سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ یہ آپریشن کسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف ہے۔