اسلام آباد —
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر فائربندی کے معاہدے پر موثر عمل درآمد اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں پڑوسی ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان 24 دسمبر کو ملاقات ہو گی۔
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستانی فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز عامر ریاض نے اپنے بھارتی ہم منصب کو اس ملاقات کی دعوت دی۔
ملاقات کی اس دعوت کو بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ونود بھاٹیہ کی جانب سے قبول کر لیا گیا، اگرچہ سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ ملاقات کس مقام پر ہو گی تاہم اطلاعات کے مطابق عسکری کمانڈروں کی یہ ملاقات دونوں ملکوں کے سرحدی علاقے واہگہ میں پاکستان کی جانب ہو گی۔
ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات میں کشمیر میں سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز کے درمیان ملاقات پر اتفاق کیا گیا تھا۔
نواز شریف اور منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات کے بعد دونوں پڑوسی ملکوں کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز کے درمیان اگرچہ ہاٹ لائن پر معمول کے مطابق رابطہ ہوتا رہا ہے تاہم 14 سال بعد دنوں ملکوں کے درمیان اس سطح پر یہ پہلی براہ راست ملاقات ہو گی۔
پاکستان کے فوجی کمانڈر کی جانب سے اپنے بھارتی ہم منصب کو اس ملاقات کی دعوت سے قبل منگل کو اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس میں علاقائی صورت حال کا جائزہ لیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ہی بھارت کا دورہ کر کے واپس آنے والے پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف نے بدھ کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ اُنھوں نے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملاقات میں حکومت کے اس موقف کو دہرایا کہ دیرپا امن کے قیام کے لیے دوطرفہ دیرینہ مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
’’ہم نے جنگیں لڑیں اور اُن جنگوں کے نتیجے میں ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا، لیکن جہاں پر ہم کو باہمی طور پر پرامن ہمسایوں کی طرح رہنا ہے تو یہ دونوں ممالک کی قیادت پر (منحصر) ہے کہ ہم نے کس طرح اپنے ممالک میں غربت و بے روزگاری کو ختم کرنا ہے اور اس خطے میں کس طر دیرپا امن قائم کرنا ہے۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003ء میں کشمیر میں فائر بندی کا معاہدہ طے پایا تھا جس پر بیشتر وقت دونوں جانب سے عمل درآمد کیا جاتا رہا۔
رواں سال اگست میں کشمیر میں سرحدی کشیدگی میں اضافہ اُس وقت ہوا جب ایک حملے میں پانچ بھارتی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر لگایا لیکن اسلام آباد روز اول ہی سے اس کی تردید کرتا رہا ہے۔
اس واقعے کے بعد لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات وقفے وقفے سے جاری رہے جس میں پاکستان کے مطابق اُس کے ایک فوجی افسر سمیت کم از کم چار اہلکار ہلاک ہوئے جب کہ کئی شہری بھی اس کی زد میں آئے۔
دونوں ملک ایک دوسرے پر فائر بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستانی فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز عامر ریاض نے اپنے بھارتی ہم منصب کو اس ملاقات کی دعوت دی۔
ملاقات کی اس دعوت کو بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ونود بھاٹیہ کی جانب سے قبول کر لیا گیا، اگرچہ سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ ملاقات کس مقام پر ہو گی تاہم اطلاعات کے مطابق عسکری کمانڈروں کی یہ ملاقات دونوں ملکوں کے سرحدی علاقے واہگہ میں پاکستان کی جانب ہو گی۔
ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات میں کشمیر میں سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز کے درمیان ملاقات پر اتفاق کیا گیا تھا۔
نواز شریف اور منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات کے بعد دونوں پڑوسی ملکوں کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز کے درمیان اگرچہ ہاٹ لائن پر معمول کے مطابق رابطہ ہوتا رہا ہے تاہم 14 سال بعد دنوں ملکوں کے درمیان اس سطح پر یہ پہلی براہ راست ملاقات ہو گی۔
پاکستان کے فوجی کمانڈر کی جانب سے اپنے بھارتی ہم منصب کو اس ملاقات کی دعوت سے قبل منگل کو اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے اجلاس میں علاقائی صورت حال کا جائزہ لیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ہی بھارت کا دورہ کر کے واپس آنے والے پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف نے بدھ کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ اُنھوں نے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملاقات میں حکومت کے اس موقف کو دہرایا کہ دیرپا امن کے قیام کے لیے دوطرفہ دیرینہ مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
’’ہم نے جنگیں لڑیں اور اُن جنگوں کے نتیجے میں ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا، لیکن جہاں پر ہم کو باہمی طور پر پرامن ہمسایوں کی طرح رہنا ہے تو یہ دونوں ممالک کی قیادت پر (منحصر) ہے کہ ہم نے کس طرح اپنے ممالک میں غربت و بے روزگاری کو ختم کرنا ہے اور اس خطے میں کس طر دیرپا امن قائم کرنا ہے۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003ء میں کشمیر میں فائر بندی کا معاہدہ طے پایا تھا جس پر بیشتر وقت دونوں جانب سے عمل درآمد کیا جاتا رہا۔
رواں سال اگست میں کشمیر میں سرحدی کشیدگی میں اضافہ اُس وقت ہوا جب ایک حملے میں پانچ بھارتی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر لگایا لیکن اسلام آباد روز اول ہی سے اس کی تردید کرتا رہا ہے۔
اس واقعے کے بعد لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات وقفے وقفے سے جاری رہے جس میں پاکستان کے مطابق اُس کے ایک فوجی افسر سمیت کم از کم چار اہلکار ہلاک ہوئے جب کہ کئی شہری بھی اس کی زد میں آئے۔
دونوں ملک ایک دوسرے پر فائر بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔