ماہرین قانون کے بین الاقوامی کمیشن (آئی سی جے) اور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی کے سوالوں کا جامعجواب دیں۔
’ایچ آر سی پی‘ کی طرف سے منگل کو جاری ہونے والی ایک بیان کے مطابق آئی سی جے ایشیا کے ڈائریکٹر سام ظریفی نے کہا کہ ”پاکستان نے حالیہ سالوں میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق طریقہ کار کے حوالے سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے جو ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ لیکن اُن کے بقول یہ ضروری ہے کہ حکومت محض اسی پر اکتفا نہ کرے بلکہ وہ مزید تعمیری اقدام کرتے ہوئے کمیٹی کے سوالوں کا سچائی اور ایمانداری سے جواب دے۔
انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی نے نومبر2016ء میں اپنے 118ویں اجلاس میں ”معاملات کی فہرست“ نامی ایک دستاویز کی منظوری دی تھی جو پاکستان کی جانب سے شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی میثاق (آئی سی سی پی آر) پر عملدرآمد سے متعلق تھی۔
اس دستاویز میں کمیٹی نے ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے بارے میں متعدد سوالات پوچھے تھے جن میں اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد فوجی عدالتوں کے توسیعی دائرہ اختیار کے نتیجے میں شفاف قانونی کارروائی سے متعلق پائے جانے والے تحفظات، بشمول فوجی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کے انتخاب کا معیار اور طریقہ بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کا آغاز اور اس کے اطلاق کے دائرہ کار میں اضافے کے بارے میں بھی سوال پوچھا گیا۔
’ایچ آر سی پی‘ کی چیئرپرسن زہر یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی طرف سے انسانی حقوق سے متعلق 2010ء میں ایک میثاق کی توثیق کی گئی تھی اس لیے ضروری ہے پاکستان کمیٹی کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دے۔
پاکستانی حکومت کا موقف رہا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے حالیہ برسوں میں نا صرف قانون سازی کی گئی ہے بلکہ مروجہ قوانین پر عمل درآمد کو بھی موثر بنایا جا رہا ہے۔
10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے صدر ممنون حسین نے کہا تھا کہ انسانی حقوق سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کے لیے قومی، صوبائی اور مقامی سطح پر اقدامات کیے گئے ہیں۔
’’موثر افراد پر مشتمل ایسی کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں جو اپنے اثر و رسوخ ان قوانین پر عمل درآمد کرتے ہوئے (یقینی بنائیں کہ) عمومی طور پر پاکستان کے عوام اور خصوصی طور پر اقلیتوں، خواتین، بچوں، خواجہ سراؤں اور معذورں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔‘‘
2010 میں جب سے پاکستان نے عالمی میثاق کی توثیق کی تھی اور اس کے بعد سے اب تک ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے پاکستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر نظرثانی کی ہو۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق اس امر کا جائزہ لیتی ہے کہ آیا عالمی میثاق برائے شہری وسیاسی حقوق کی فریق ریاستیں اس میثاق پر عملدرآمد کر رہی ہیں یا نہیں۔
ایک بیان میں ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل، آئی اے رحمن نے کہا "پاکستان کے لیے یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ کمیٹی کے تحفظات دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں کر کے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نظام کا حصہ بنے‘‘ اور اس سے فائدہ اٹھائے۔"