رسائی کے لنکس

'انسانی حقوق کے لیے قانون سازی ہی کافی نہیں'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں سال عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے دو قیدیوں کی سزا پر عملدرآمد روکنے کا حکم دیا تھا لیکن سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ ان قیدیوں کو پہلے ہی تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے ضمن میں اقدام تو دیکھنے میں آئے ہیں لیکن اس کے باوجود وضع کردہ قوانین کا موثر انداز میں نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں معاشرے کے مختلف طبقات حقوق سے محرومی یا استحصال کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔

دنیا بھر کی طرح ہفتہ کو پاکستان میں بھی انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیا اور اس دن کی مناسبت سے صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پیغامات میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کو لاحق خطرات سے نمٹنے اور انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔

حالیہ مہینوں میں خاص طور پر خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے قانون سازی کی گئی ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے اس کی سنجیدگی کو ظاہر کرتے ہیں۔

لیکن انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ حکومت کی طرف سے بیانات اور قانونی سازی کے ساتھ ساتھ اگر اس کے موثر نفاذ سے متعلق عدم برداشت کا پیغام پورے معاشرے تک بھرپور انداز میں پہنچے تو ہی صورتحال میں واضح تبدیلی آسکتی ہے۔

"قانون سازی کافی نہیں ٹھیک ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست برداشت نہیں کرے گی جو خلاف ورزی ہو رہی ہے انسانی حقوق کی لیکن جب تک وہ انتظامیہ کی سطح پر یہ بات واضح نہیں کریں گے کہ چاہے خواتین پر تشدد ہو یا بچوں پر یہ غیر قانونی ہے تو تبدیلی کا آنا مشکل ہے اور حکومت کے لیے یہ بڑا چیلنج ہے وہ یہ ثابت کرے کیونکہ اسی سے اس کا عزم ظاہر ہوتا ہے۔"

رواں سال کے اوائل میں بھی حکومت نے انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے ایک قومی لائحہ عمل کا اعلان کیا تھا اور اس 16 نکاتی حکمت عملی میں خاص طور پر خواتین، بچوں، اقلیتوں اور معذور افراد کے حقوق کے لیے پالیسی سازی اور دیگر اقدام شامل تھے۔

پاکستان نے 2014ء میں سزائے موت پر عملدرآمد پر عائد پابندی ہٹا دی تھی جس پر نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر پولیس کے تفتیشی مراحل میں سقم سے بسا اوقات بے گناہ افراد کو بھی موت کے علاوہ طویل قید کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رواں ماہ ہی ملک کی عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے ایک قیدی کو 24 سال بعد باعزت بری کر دیا تھا جب کہ ایک اور مقدمے میں سزائے موت کے ملزم کو دس سال کے بعد رہائی ملی۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں سال عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے دو قیدیوں کی سزا پر عملدرآمد روکنے کا حکم دیا تھا لیکن سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ ان قیدیوں کو پہلے ہی تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔ اس معاملے پر عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیتے ہوئے جواب طلب کر رکھا ہے۔

قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم "جسٹس پراجیکٹ پاکستان" کی عہدیدار سارہ بلال کہتی ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت استغاثہ کے نظام میں بھی اصلاحات ضروری ہیں۔

"ہمارا جو کرمنل جسٹس سسٹم ہے اس کا نقطہ آغاز پولیس سے وابستہ ہے اب وہاں اتنی مشکلات ہوں تو اعتماد سے نہیں کہا جا سکتا کہ صرف قصورواروں کو ہی سزائیں دی جا رہی ہیں۔ تو ان پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت ہر ممکن حد تک ناانصافیوں اور انسانی حقوق کی پامالی کے تدارک کے لیے کوشاں ہے۔

ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر برائے انسانی حقوق کامران مائیکل کا کہنا تھا۔

"ضلعی سطح پر ہم نے انسانی حقوق کمیٹیاں تشکیل دی ہیں موثر قانون سازی کے ذریعے سے قوانین کو تحفظ مل رہا ہے ابھی ہم نے جنسی زیادتی اور غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون منظور کیے ہیں۔"

مبصرین یہ کہتے آرہے ہیں کہ انسانی حقوق سے آگاہی کے لیے حکومت کو قانون سازی کے علاوہ معاشرتی سطح پر بھی اقدام کرنے چاہیئں جن میں خاص طور پر اسکول کی سطح پر اسے بطور مضمون نصاب میں شامل کرنا بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG