رسائی کے لنکس

سندھ میں غیرت کے نام پر13 سالہ لڑکی کا قتل، انتظامیہ پر نکتہ چینی


غیرت کے نام پر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کے خلاف سول سوسائٹی کا مظاہر۔ فائل فوٹو
غیرت کے نام پر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کے خلاف سول سوسائٹی کا مظاہر۔ فائل فوٹو

سندھ کے ضلع خیرپور کے شہر کوٹ ڈیجی میں اغوا کے بعد غیرت کے نام پر 13 سالہ لڑکی کو قتل کر دیا گیا۔ گزشتہ سال بھی ملک بھر میں اس طرح کے ساڑھے سات سو کے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور اپوزیشن جماعتوں نے قاتلوں کی گرفتاری میں تاخیر اور خواتین کے خلاف جرائم نہ روکنے پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

اگرچہ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ خیرپور میں 13 سالہ رمشا وسان کو قتل کرنے والے مرکزی ملزم ذوالفقار وسان عرف زلفو کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن انسانی حقوق کے کارکن، سول سوسائٹی اور اپوزیشن جماعتیں پولیس کی جانب سے ملزم کی گرفتاری میں کئی روز کی غیر معمولی تاخیر پر سوالات اٹھا رہی ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کے اس واقعہ کی بازگشت سندھ اسمبلی میں بھی سنائی دی اور اپوزیشن جماعتوں نے اس پر شديد احتجاج کرتے الزام لگایا کہ پولیس مرکزی ملزم کو بچانے کے کوشش کرتی رہی جو پیپلز پارٹی کے ایک رکن اسمبلی کا قریبی عزیز بتایا جاتا ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق اسمبلی اور میڈیا پر آواز اٹھنے کے بعد ہی صوبائی حکومت کو ایکشن لینے پر مجبور ہونا پڑا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حزب اختلاف کی صوبائی رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی نے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات نہ رکنے کی وجہ پولیس کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ سخت قوانین باوجود بھی ملزمان اکثر اوقات سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔

ان کے مطابق رمشا وسان کے کیس میں بھی یہی بات سامنے آئی ہے۔ پولیس کی پریس ریلیز کے مطابق مرکزی ملزم ذوالفقار وسان اس سے قبل غیرت کے نام پر قتل کی تین مختلف وارداتوں سمیت دو درجن سے زائد مقدمات میں پولیس کو 25 برسوں سے مطلوب تھا، لیکن اسے پہلے گرفتار نہیں کیا گیا۔

نصرت سحر عباسی نے سوال اٹھایا کہ کریمنل ریکارڈ رکھنے والے شخص کو آزاد کیوں پھرنے دیا گیا اور پولیس نے اسے پکڑنے کی کیوں کوشش نہہن کی؟ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کسی اثر و رسوخ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

کئی لوگوں نے پولیس کے اس دعویٰ پر بھی سوال اٹھائے ہیں کہ اسے ایک کارروائی کے دوران پکڑا گیا۔ یا پھر ملزم نے ہی خود گرفتاری دی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اس معاملے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی اور ایک چھوٹے سے شہر میں پولیس سیاسی اثر و رسوخ اور دباؤ کی وجہ سے اغوا اور قتل اس واقعہ کو روکنے میں اس لیے ناکام رہی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی کا کہنا ہے کہ 13 سالہ لڑکی کے اغوا کے بعد غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ یقینی طور پر افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔ انہوں نے ایسے واقعات کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی نے خواتین کی فلاح و بہبود، ان کے تحفظ اور قبیح رسومات کے خلاف قوانین بنائے ہیں، لیکن اصل معاملہ ان قوانین پر عمل درآمد کا ہے۔

شاہدہ رحمانی کے مطابق اس ضمن میں لوگوں کی آگاہی کے ساتھ پولیس کی تربیت بھی بے حد ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل صوبے کی ثقافت کا حصہ نہیں بلکہ سماجی رویے کا نام ہے جو صدیوں سے قبائلی سوچ کا حصہ رہا ہے جسے تبدیل کرنے کے لئے شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

شاہدہ رحمانی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو ان واقعات پر سیاست کے بجائے معاملے کی سنگینی اور حساسیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ یہ پولیس کی کامیابی ہے کہ قاتلوں کو چند روز میں ہی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے اور کاروکاری کے وقت جیسے واقعات کے تدارک کے لئے قوانین میں پائے جانے والے سقم بھی دور کرنے کی ضرورت ہے۔

ادھر انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پاکستان بھر میں 750 سے زائد واقعات غیرت کے نام پر قتل کے رجسٹرڈ ہوئے ہیں لیکن یہ تعداد صحیح تصویر واضح نہیں کرتی کمیشن کے مطابق اس سے کہیں بڑی تعداد میں ایسے واقعات بھی ہیں رپورٹ نہیں ہوتے۔

سندھ حکومت کی جانب سے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین سے متعلق بل اور اس جیسے دیگر کئی برس اسمبلی سے پاس کیے جاچکے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق ان قوانین کے اب بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG