سال 2018 سمٹ گیا لیکن اس سال ہونے واقعات کی گونج اب بھی باقی ہے۔ جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں اچھے اور برے اثرات مرتب ہوئے، وہیں تشدد نے بھی پاکستانی معاشرے کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ خاص طور پر خواتین کے ساتھ پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا۔
خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بلوچستان میں غیرت کے نام پر تشدد کے 145 واقعات ریکارڈ ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق سال بھر کے دوران صوبے میں غیرت کے نام پر 35 خواتین قتل ہوئیں جب کہ 19 مردوں کی زندگی کے چراغ بھی گل کردیے گئے۔
'عورت فاؤنڈیشن' کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے بارہ مہینوں میں 16 خواتین نے گھریلو حالات سے تنگ آ کر خودکشی کی جب کہ 21 خواتین اور آٹھ مردوں کو مختلف طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
تیرہ خواتین اغوا ہوئیں، چار خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور دو خواتین پر تیزاب پھینک کر ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے تکلیف دہ بنادیا گیا۔
خواتین کے ساتھ پیش آنے والے پر تشدد واقعات کو کس طرح روکا یا کم کیا جاسکتا ہے؟ اس بارے میں عورت فاؤنڈیشن بلوچستان کے پروگرام افسر اشفاق مینگل کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف پرتشدد واقعات کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر ہی اس طرح کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اشفاق مینگل کے بقول بلاشبہ حکومت اور سول سوسائٹی نے ان مسائل پر کافی کام کیا ہے اور اسی کام کی بدولت تشدد کے خلاف قانون سازی عمل میں آئی۔ خواتین کو ہراساں نہ کرنے کا قانون بھی موجود ہے لیکن ان قوانین اور سزاؤں پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اگر قانون پر سزائیں ہونے لگیں تو پوری امید ہے کہ حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
بلوچستان میں خواتین کے ساتھ پرتشدد واقعات میں اضافے کی ایک وجہ یہاں کا نیم قبائلی معاشرتی نظام اور صوبے کی دور افتادہ علاقوں میں پھیلی ہوئی آبادی بھی ہے جہاں خواتین پر تشدد کے واقعات عام ہیں۔
عورت فاؤنڈیشن کے مطابق ان علاقوں میں خواندگی کی شرح کم ہونے اور خواتین میں اپنے قانونی حقوق کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے باعث بھی پرتشدد واقعات ہوتے ہیں۔
صوبائی حکومت کے محکمے 'ویمن ڈیولپمنٹ' کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر رُخسانہ بلوچ نے وی او اے کو بتایا کہ خواتین پر تشدد کے حوالے سے مردوں اور خواتین میں شعور کی کمی ہے۔
ان کے بقول اُن کے محکمے نے عوامی شعور بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں اور خواتین اور مردوں کو یکساں حقوق کی فراہمی پر کام کیا جا رہا ہے۔
رخسانہ بلوچ نے بتایا کہ حکومت لورالائی، نصیر آباد اور تربت میں شیلٹر ہومز تعمیر کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پولیس اور دیگر اداروں کو بھی فعال بنایا جارہا ہے تاکہ وہ بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔