پاکستان کے دفترِ خارجہ نے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر جمعے کو ہونے والے حملوں میں چھ پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔
شام گئے ایک ٹوئیٹ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ''کرائسٹ چرچ کے دہشت گرد حملے میں'' پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدید افسوس اور صدمے کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ''وہ ہم میں نہیں رہے''۔ اُنھوں نے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا. ٹوئیٹ میں ہلاک شدگان کی تصاویر دی گئی ہیں۔
اس سے قبل، دفترِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے ٹوئٹر پر ایک مختصر بیان میں بتایا ہے کہ نیوزی لینڈ کے حکام نے سہیل شاہد، سید جہاں داد علی، سید اریب احمد، محبوب ہارون، نعیم راشد اور ان کے صاحبزادے طلحہ نعیم کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔
محمد فیصل نے بتایا کہ واقعے کے بعد سے لاپتا تین پاکستانیوں کو شناخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں جمعے کی نماز کے دوران ہونے والی فائرنگ سے 49 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے حملے کے بعد نو پاکستانیوں کے لاپتا ہونے کی تصدیق کی تھی۔
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہفتے کو ملتان میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ نیوزی لینڈ میں تعینات پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر متاثرہ پاکستانیوں کی داد رسی کے لیے کرائسٹ چرچ پہنچ چکے ہیں اور وہاں کے حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر لاپتا افراد کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ٹوئٹر پر لاپتا نو پاکستانیوں کی فہرست بھی جاری کی تھی جن میں سے اب چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حملے میں شدید زخمی ایک پاکستانی اسپتال میں زیرِ علاج ہیں جن کی شناخت حافظ آباد کے محمد امین ناصر کے نام سے ہوئی ہے۔
'میں نے والد سے کہا کہ بھاگیں یہاں سے۔۔'
محمد امین ناصر کے صاحبزادے اور فائرنگ کے عینی شاہد یاسر امین نے کرائسٹ چرچ سے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ کو واقعے کی تفصیلات بتائیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے والد کے ہمراہ جمعے کی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کی پارکنگ میں پہنچے ہی تھے کہ انہیں فائرنگ کی آواز سنائی دی جسے انہوں نے نظر انداز کردیا کیوں کہ کرائسٹ چرچ میں اس قسم کی صورتِ حال کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔
یاسر امین کے مطابق جب فائرنگ مسلسل سنائی دیتی رہی تو انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ ہمیں یہاں سے بھاگنا چاہیے۔ اسی اثنا میں مسلح شخص ان کے سامنے آ گیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ گاڑی کی طرف دوڑے لیکن اس دوران ان کے والد کو چار گولیاں لگیں جن میں سے ایک ان کو چھو کر گزر گئی جب کہ تین ان کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔
یاسر امین نے بتایا کہ واقعے کے بعد سے کچھ پاکستانی لاپتا ہیں اور اس وقت پاکستانی کمیونٹی کے افراد پریشانی میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے حکام بھی کرائسٹ چرچ پہنچ گئے جو حکومتی اداروں سے معلومات کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے پاکستانی کمیونٹی کو مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔
اپنے والد کی صحت کے بارے یاسر امین نے بتایا کہ ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے لیکن وہ تاحال اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
'کوئی معلومات نہیں دے رہا'
کرائسٹ چرچ حادثے میں لاپتا قرار دیے جانے والے ایک اور پاکستانی راولپنڈی کے ہارون محمود کے قریبی عزیر ضیاء بٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہارون محمود نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے النور مسجد گئے تھے جس کے بعد سے ان کے متعلق کوئی اطلاع نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لاپتا ہارون محمود کی اہلیہ اس وقت بھی کرائسٹ چرچ کے اسپتال کے باہر موجود ہیں لیکن نہ تو نیوزی لینڈ کے کسی ادارے اور نہ ہی پاکستانی ہائی کمیشن کے حکام انہیں کسی قسم کی معلومات دے رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے حکام نے تاحال ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔ لیکن حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے بیشتر افراد تارکینِ وطن یا پناہ گزین تھے جن کا تعلق کئی مسلمان ملکوں سے تھا۔
پاکستان، بھارت، ملائیشیا، انڈونیشیا، ترکی، صومالیہ اور افغانستان کی حکومتوں نے حملے میں اپنے اپنے شہریوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
کرائسٹ چرچ کی مساجد پر دہشت گرد حملے کی مذمت میں پاکستان کے متعدد شہروں میں احتجاجی ریلیاں اور تعزیتی اجتماعات بھی ہوئے ہیں۔ واقعے پر کئی دیگر مسلم ملکوں میں بھی احتجاج ہوا ہے۔