رسائی کے لنکس

الیکٹیبلز کی اڑان کا موسم۔۔۔


الیکٹیبلز تحریک انصاف میں جا نہیں رہے، بھجوائے جا رہے ہیں، راجہ ظفرالحق۔ الیکٹیبلز ہماری مقبولیت دیکھ کر آ رہے ہیں، محمودالرشید

پاکستان میں عام انتخابات کے لیے اگرچہ حتمی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں ہوا لیکن سیاسی سرگرمیاں شدومد سے جاری ہیں۔ حلقہ جاتی سیاست میں اہمیت رکھنے والے خاندان یا افراد جن کو الیکٹیبلز بھی کہا جاتا ہے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے ایک پارٹی کو چھوڑ دوسری کا رخ اختیار کر رہے ہیں۔

وفاداریاں تبدیل کرنے والے زیادہ تر الیکٹیبلز کا جھکاو تحریک انصاف کی جانب نظر آ رہا ہے۔ یہ سیاسی ’’نقل مکانی‘ ‘کس جماعت کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے، کس کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ کہ روایتی سیاست کے امین سمجھے جانے والے یہ الیکٹیبلز آیا کسی غیر روایتی انتظامی ایجنڈے کے لیے مددگار ہوں گے؟

ایسے میں جب انتخابات کا بگل بجنے والا ہے، پاکستان میں آبادی اور قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب اس بار بھی اصل میدان جنگ بنتا نظر آتا ہے۔ یہاں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عام طور پر وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب رہتی ہے۔ جیسے جیسے انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے، سیاسی وفاداریاں بھی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ اگرچہ کئی سیاسی شخصیات حالیہ دنوں میں نواز لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر الیکٹیبلز یا دوسری پارٹیوں سے منحرف ہونے والوں کی اگلی منزل تحریک انصاف بنتی نظر آرہی ہے۔ جنوبی پنجاب سے تشکیل پانے والا جنوبی پنجاب صوبہ محاذ پہلے ہی پی ٹی آئی میں ضم ہو چکا جبکہ گزشتہ دو دنوں میں فیصل آباد، جھنگ اور گوجرانوالہ سے کئی ایک موجودہ یا سابق اراکین پارلیمنٹ نے پیپلز پارٹی میں شرکت اختیار کر لی ہے۔ تحریک انصاف کے راہنماؤں کا دعوی ہے کہ نواز لیگ کا گڑھ سمجھے جانے والے جی ٹی روڈ (لاہور سے اٹک تک) سے پارٹی کو سخت دھچکہ لگنے والا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے قائد میاں نواز شریف کے حالیہ متنازعہ بیانات سے پارٹی کے اندر اتحاد قائم رکھنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں اور پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف اسی نقصان کے ازالے کی کوششیں کرتے ہوئے کہہ رہے کہ آئندہ دنوں میں نواز شریف کے موقف میں نرمی آسکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے چیئرمین، بزرگ سیاستدان راجہ ظفرالحق نے کہا کہ بہت سے الیکٹیبلز پارٹی ٹکٹ نہ ملنے، یا حلقہ بندیوں میں اپنے حلقے متاثر ہونے کے سبب پارٹیاں تبدیل کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی جانب الیکٹیبلز کا جھکاؤ کسی نظریے کے سبب نہیں بلکہ ان کے بقول ’’ان کو زبردستی وہاں بھیجا رہا ہے‘‘۔

پاکستان تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف عوام کی جماعت بن چکی ہے اور الیکٹیبلز کی مجبوری بن رہا ہے اس پارٹی میں شامل ہونا، کیونکہ اس پارٹی کا ٹکٹ حلقے میں دوسرے یا تیسرے نمبر کے الیکٹیبل کو فاتح بنا سکتا ہے۔ کسی کے دباؤ پر الیکٹیبلز نے آنا ہوتا تو 2013 کے انتخابات میں آ جاتے، اب وہ پارٹی کی ہوا دیکھ کر آ رہے ہیں۔

سیاسی نقل مکانی کے اس موسم میں یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ آیا تحریک انصاف جو اداروں کو مضبوط بنانے اور پولیس اور محکمہ مال کو غیر سیاسی بنانے کا وعدہ کرتی آ رہی ہے، انہی سرکاری اداروں میں عمل دخل کے سبب حلقے مضبوط رکھنے والے سیاستدانوں کے سامنے سمجھوتہ کر لے گی ؟ میاں محمودالرشید کہتے ہیں کہ الیکٹیبلز ان کے منشور اور ایجنڈے پر ان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں، پارٹی اپنے ایجنڈے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ الیکٹیبلز کا پولیس اور دیگر سرکاری محکموں میں عمل دخل نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکٹیبلز کی اہمیت ایک تلخ زمینی حقیقت ہے مگر پی ٹی آئی ہر ضلع میں امیدواروں کے کمبی نیشن میں توازن رکھتے ہوئے پارٹی کے نظریاتی ورکروں اور الیکٹیبلز کے درمیان توازن رکھے گی۔

راجہ ظفرالحق کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے پاس دینے کو کوئی ایجنڈا یا پلان نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ ’’ پاکستان کی سیاست میں ایسا مرحلہ ہے جہاں عدلیہ اور عسکری اداروں کا دباؤ بڑھا ہے۔‘‘

تجزیہ کار رانا محبوب اختر نے کہا کہ پنجاب میں بدلتی ہوئی سیاسی وفاداریوں کا پنڈولم تحریک انصاف کی جانب جا رہا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ روایتی سیاستدان تحریک انصاف کو انسٹی ٹیوشنلائزشن کے ایجنڈے سے نہیں روک سکیں گے۔ ان کے بقول سیاسی خاندانوں کی اگلی جنریشن اس حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے۔

مسلم لیگ نواز کے سینیئر راہنما راجہ ظفرالحق نے کہا کہ اس وقت بھی اگر منصفانہ انتخابات کرا دیے جائیں تو نواز لیگ بھاری اکثریت سے پنجاب میں فتح حاصل کر لے گی۔

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG