وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے جمعہ کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ دنیا کی 95 فیصد پوست کی فصل افغانستان میں کاشت کی جاتی ہے جس سے بنائی جانے والی افیون اور ہیروئن کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے راستے بیرونی دنیا کو اسمگل کیا جا رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ خطے میں منشیات کی اس تجارت کا سالانہ حجم تقریباً 5 ارب ڈالر ہے جب کہ یورپی منڈیوں میں پہنچنے پر اس کی مالیت میں 27 گنا اضافہ ہو جاتا ہے اور منشیات کے اس غیر قانونی دھندے کی آمدنی جہاں دہشت گردی، اسلحہ کی اسمگلنگ اور دیگر جرائم کے لیے استعمال ہو رہی ہے وہیں اس کی وجہ سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
لیکن وزیر داخلہ نے کہا کہ اس تمام صورت حال کے لیے پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام میں ناکامی میں مغربی ملکوں پر بھی برابر کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جہاں طلب میں کمی نہ ہونے کے باعث منشیات کی رسد میں بدستور اضافہ ہوا ہے۔
رحمٰن ملک نے کہا کہ منشیات کے اس کاروبار سے ہونے والی آمدنی دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کی جارہی ہے اور ان کے بقول پاکستان کے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ منشیات کی پیداوار میں دہشت گرد عناصر کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستانی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے بین الاقوامی برادری کی نمائندگی کرنے والے ہر وفد سے اس مسئلے پر بات چیت کی حتٰی کہ نیٹو افواج کے کمانڈر کی توجہ بھی افغانستان میں منشیات کی پیداوار اور وہاں قائم ہیروئن بنانے والی فیکٹریوں کی طرف مبذول کرائی۔
لیکن رحمٰن ملک نے کہا کہ نیٹو کمانڈر نے اس کا سادہ سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کی افواج کے پاس افغانستان میں انسداد منشیات کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
پاکستانی وزیر داخلہ کے بقول اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے اور سب اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی اس سے جڑی ہوئی ہے تو پھر منشیات فروشوں کو بھی دہشت گردوں کا حصہ جان کر اُن کے خلاف جنگ شروع کیوں نہیں کی جاتی۔ انھوں نے اس موقع پر امریکہ اور نیٹو دونوں سے پُرزور انداز میں اپیل کی کہ جب تک اُن کی افواج افغانستان میں موجود ہیں انھیں منشیات اور اس کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف جنگ کا اختیار بھی دیا جائے۔
وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا کہ دہشت گردی اور منشیات کے خاتمے کی کوششوں کے دوران ایک دوسرے پر تنقید کی بجائے بین الاقوامی برادری کو مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار کو بڑھانے اور تربیت کے علاوہ منشیات کی اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے موثر قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔