پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل جیت تو لیا ہے، تاہم سیریز میں اسے دو ایک سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کپتان بابر اعظم کے زخمی ہونے کی وجہ سے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ان کی غیر موجودگی سے ٹیم ابھی سنبھل ہی پائی تھی کہ اچانک ٹوئنٹی سیریز میں بابر اعظم کی غیر موجودگی میں کپتانی کرنے والے شاداب خان کے زخمی ہونے کی خبر آ گئی اور ٹیم کا جو رہا سہا مورال تھا، وہ بھی ڈاؤن ہو گیا۔
دونوں ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ ہفتہ 26 دسمبر سے ماؤنٹ مانگنوئی میں کھیلا جائے گا۔ تاہم اِن فارم بیٹسمین بابر اعظم کی غیر موجودگی، بالکل نئے کپتان کی موجودگی اور نہ ہونے کے برابر پریکٹس کے بعد، کیا پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف خاطر خواہ کارکردگی دکھا پائے گی؟
جب اس بارے میں وائس آف امریکہ نے سینئر اسپورٹس جرنلسٹس سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اس درجے کی تو نہیں ہو گی، لیکن مضبوط بالنگ میزبان ٹیم کو مشکل میں ضرور ڈالے گی۔
حالیہ میچز کے دوران نیوزی لینڈ کا پلڑا بھاری
پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کے متعدد سینئر کھلاڑی فائنل الیون میں نہیں تھے۔ اس کے باوجود گرین شرٹس کو شکست ہوئی۔
ایک صفر کی برتری کو میزبان ٹیم نے دو صفر میں اس وقت بدلا جب کپتان کین ولیمسن کے ساتھ ساتھ باقی سینئر کھلاڑیوں کی پلیئنگ الیون میں واپسی ہوئی۔
سینئر کمنٹیٹر مرزا اقبال بیگ کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم ٹی ٹوئنٹی سیریز خراب کمبی نیشن اور حکمت عملی کی وجہ سے ہاری۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ٹیم میں ان تین میچوں میں صرف ایک ہی تجربہ کار کرکٹر محمد حفیظ موجود تھے۔ جن کے گرد پوری ٹیم کی کارکردگی گھوم رہی تھی۔
ان کے بقول بابر اعظم کی جگہ عبد اللہ شفیق اور حیدر علی کو موقع دیا گیا لیکن وہ توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرفراز احمد کو ایک اوپنر کے طور پر آزما سکتے تھے۔ اگر محمد رضوان سے کیپنگ کرانا تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی کھلاڑی کو مستقل میچز کھلائیں گے تو وہ پرفارم کرے گا۔ محمد رضوان اور فہیم اشرف کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
ان کے بقول پسند نا پسند کی بنیاد پر ٹیم کا انتخاب نہیں کیا جاتا اور اگر حکمت عملی اچھی ہوتی تو پاکستان ٹی ٹوئنٹی سیریز جیت سکتا تھا۔
نیوزی لینڈ کو نیوزی لینڈ میں شکست دینا مشکل
ایک زمانہ تھا جب پاکستانی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ صرف جیتنے کے لیے جاتی تھی۔ لیکن اس وقت کی نیوزی لینڈ ٹیم اور آج کی پاکستان ٹیم میں بہت فرق ہے۔
سن 2011 سے لے کر اب تک نیوزی لینڈ کو سوائے جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے کوئی بھی ٹیم ان کے ملک میں ٹیسٹ سیریز میں شکست نہیں دے سکی۔
پاکستان کو کیویز کے دیس میں جیتنے کے لیے سخت محنت کرنا ہو گی۔
اس سیریز سے قبل نیوزی لینڈ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کامیابی حاصل کی۔ جب کہ ملک سے باہر آخری ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کو انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پاکستان نے پہلے میچ کے لیے جو ٹیم منتخب کی ہے۔ اس میں کھلاڑی تو اچھے ہیں۔ تاہم ان کا اصل امتحان ماؤنٹ مانگنوئی میں ہو گا۔ جہاں آج تک صرف ایک ہی ٹیسٹ کھیلا گیا ہے۔ جس میں میزبان ٹیم نے کامیابی حاصل کی تھی۔
سینئر اسپورٹس جرنلسٹ شاہد ہاشمی کو ٹیسٹ سیریز سے اچھے نتائج کی توقع نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر بارش نہ ہوئی تو نیوزی لینڈ کی ٹیم دو صفر سے سیریز جیت سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاح اس جزیرہ نما مقام پر سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم یہاں امتحان دینے آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹیسٹ میچ کے دوران بارش ہوئی تو پاکستانی ٹیم کی کچھ بچت ہو سکتی ہے۔ کرائسٹ چرچ میں تو بارش کا امکان ہوتا ہے۔ لیکن ماؤنٹ مانگنوئی میں صرف اتوار کی پیش گوئی ہے۔
ان کے بقول سیریز میں مقابلہ یک طرفہ ہی لگ رہا ہے کیوں کہ میزبان ٹیم کافی تیاری کے ساتھ آ رہی ہے۔
ان کے خیال میں نیوزی لینڈ کی حالیہ کارکردگی وہ بھی اپنے میدانوں میں انہیں سیریز جیتنے کے لیے فیورٹ بناتی ہے۔
"نیوزی لینڈ نے اپنی کنڈیشنز میں آخری 15 میچوں میں سے 11 میں کامیابی حاصل کی ہے۔ 4 ڈرا ہوئے ہیں اور آخری بار انہیں شکست 2016 میں جنوبی افریقہ کی ٹیم سے ہوئی۔ 11 میں سے 7 میچوں وہ اننگز سے کامیاب ہوئے، یعنی میزبان ٹیم کو دوبارہ بیٹنگ کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔"
شاہد ہاشمی کا کہنا تھا کہ جتنی بھی گرین وکٹ ہو، اس پر وہ ٹاس جیت کر بیٹنگ کرتے ہیں۔ 400 سے 500 کے لگ بھگ اسکور بنا کر دوسری ٹیم کو دباؤ میں لاتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ بھی ان کا یہی پلان ہو گا۔
کیوی بالرز کی تعریف کرتے ہوئے شاہد ہاشمی نے کہا کہ اس زبردست بالنگ لائن اپ کے سامنے پاکستانی بلے بازوں کا اصل امتحان ہو گا۔
نیوزی لینڈ کے بالر ٹم ساؤتھی ٹیسٹ کرکٹ میں 296 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔ جب کہ ٹرینٹ بولٹ کی 272 اور نیل ویگنر کی 215 وکٹیں ہیں۔
یہی تینوں تباہی مچاتے ہیں جب کہ حال ہی میں چھ فٹ آٹھ انچ کے کائل جیمیسن اپنے ہائیں آرم ایکشن اور خطرناک یارکرز کی وجہ سے بلے بازوں کو پریشان کرنے لگے ہیں۔
شاہد ہاشمی کے مطابق پاکستانی ٹیم کے پاس سیریز میں اچھا کرنے کا ایک ہی چانس ہے اور وہ یہ کہ بیٹنگ چل جائے اور ڈھائی سو سے تین سو رنز بنا کر بالرز پر چھوڑ دیا جائے۔
'بابر اعظم کی غیر موجودگی سے فرق پڑے گا'
سینئر کمنٹیٹر مرزا اقبال بیگ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بابر اعظم کی کمی تو محسوس ہوئی۔ اب ٹیسٹ سیریز میں بھی شدت سے ان کی کمی کا احسان ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پہلا ٹیسٹ محمد رضوان کا سخت امتحان ہو گا۔ خاص طور پر ان کی قائدانہ صلاحیتیوں کا۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی ٹیم کے پاس نہ اِن فارم بابر اعظم ہیں اور نہ ہی تجربہ کار اسد شفیق۔ بیٹنگ کی ساری ذمہ داری اظہر علی اور شان مسعود کے کندھوں پر ہو گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سیریز میں نیوزی لینڈ کا پلڑا بھاری ہو گا۔ کیوں کہ انہوں نے حال ہی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز دو صفر سے جیتی ہے۔
مرزا اقبال کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کا بالنگ اٹیک ٹرینٹ بالٹ، ٹم ساؤتھی اور کائل جیمیسن پر مشتمل ہو گا۔ جس کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان کی ٹیم کو مشکل ہو سکتی ہے۔
ان کے بقول میچ کو دو طرفہ بنانے کے لیے پاکستان کے ٹاپ آرڈر کو اچھا اسکور کرنا ہو گا، ورنہ مشکلات ہو سکتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے ہوم گراؤنڈ پر کمزور ٹیموں کو بلا کر تو میچ جیتے ہیں۔ ملک سے باہر گرین شرٹس کا حالیہ ریکارڈ زیادہ اچھا نہیں ہے۔
شاہد ہاشمی نے کہا کہ اگر نیوزی لینڈ کو ان کے گھر میں ہرانا ہے تو پاکستانی بالرز کو بہترین کارکردگی دکھانی ہو گی۔
شاہد ہاشمی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بالنگ تجربہ کار نہیں لیکن ٹیلنٹڈ ہے۔ محمد عباس، شاہین آفریدی، سہیل خان اور نسیم شاہ سے اچھے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
ان کے بقول سیریز میں اسپنرز کا زیادہ کردار نظر نہیں آ رہا۔ پہلے ٹیسٹ میں اگر میچ چوتھے دن تک گیا تو ہو گا لیکن یاسر شاہ کو آخری دورے میں بھی ایک میچ کھلا کر ڈراپ کر دیا گیا تھا۔ دیکھتے ہیں پاکستان کی ٹیم کس حکمتِ عملی سے میچ میں جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بابر اعظم کے نہ ہونے سے بہت فرق پڑے گا۔ محمد رضوان نئے کپتان ہیں۔ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کپتانی کر چکے ہیں اور اگر اسی مائنڈ سیٹ سے انہوں نے کپتانی کی تو چل بھی سکتے ہیں۔
مرزا اقبال بیگ کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم نے تیسرا میچ جیت کر ثابت کیا کہ نیوزی لینڈ کو ہرانا مشکل نہیں۔
شاہد ہاشمی کے مطابق کہ آخری ٹی ٹوئنٹی میچ میں فتح سے قومی ٹیم کو حوصلہ تو ملا ہو گا کہ ہم انہیں ہرا سکتے ہیں۔ تاہم ان کے بقول پاکستان کا اس امتحان میں کامیاب ہونا بہت مشکل لگ رہا ہے۔