رسائی کے لنکس

گیلانی کی سپریم کورٹ میں طلبی


گیلانی کی سپریم کورٹ میں طلبی
گیلانی کی سپریم کورٹ میں طلبی

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم سات رکنی لارجر بینچ نے پیر کو جب قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی ’این آر او‘ کے خلاف فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کے مقدمے کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل انوار الحق نے بتایا کہ وزیر اعظم گیلانی یا دیگر متعلقہ عہدے داروں نے اُنھیں سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق کوئی ہدایات نہیں دی ہیں۔

اس پر بینچ میں شامل جج صاحبان نے علحیدگی میں مشاورت کے بعد اپنا مختصر حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’’موجودہ حالات میں ابتدائی اقدام کے طور پر (وزیر اعظم کو) اظہار وجوہ نوٹس جاری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔‘‘

عدالت نے وزیراعظم گیلانی کو جمعرات کو عدالت کے روبرو پیش ہو کر اپنا موقف بیان کرنے کی ہدایت کی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے اظہار وجوہ نوٹس کے اجرا کے چند گھنٹوں بعد قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ وہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف بیان کریں گے۔

’’ہم نے ہمیشہ عدالت کا احترام کیا ہے، عدالت نے مجھ کو بلایا ہے اور انشااللہ میں عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے 19 تاریخ کو جاؤں گا۔‘‘

لیکن اُنھوں نے اس موقع پر حزب اختلاف اور دیگر حلقوں کی جانب سے پیپلز پارٹی پر این آر او کے حوالے سے کی جانے والی تنقید پر تحفظات کا اظہار کیا۔

یوسف رضا گیلانی
یوسف رضا گیلانی

’’این آر او ہم نے تو نہیں بنایا اور یہ غلطی ہم نے نہیں کی، مگر جنھوں نے این آر او بنایا وہ باہر اور باقی اندرتو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر انصاف ہونا ہے تو یہ ہونا چاہیئے کہ این آر او کے خالق کون تھے یہ ایوان جاننا چاہتا ہے، جو سزائیں عوامی نمائندوں کے لیے ہیں تو وہ ان کے لیے بھی ہونی چاہیئں۔‘‘

سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں متعارف کرائے گئے متنازع این آر او کو سپریم کورٹ نے دسمبر 2009ء میں کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے تحت ہزاروں افراد کے خلاف ختم کیے گئے مبینہ بدعنوانی کے مقدمات کو دوبارہ کھولنے کا حکم جاری کیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں حکومت کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ سوئٹزرلینڈ میں اُن مقدمات کو بھی دوبارہ کھلوانے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھے جن میں سے بعض کا تعلق پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے بھی ہے۔

لیکن وزیراعظم گیلانی کی حکومت سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکاری ہے کیوں کہ اس کا موقف ہے کہ مسٹر زرداری اس وقت ملک کے صدر ہیں اور اُنھیں کسی بھی قسم کی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1997ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو بھی سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی پاداش میں طلب کیا تھا اور وہ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے سامنے پیش بھی ہوئے تھے۔

مزید برآں پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکمران اتحادی میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے سیاسی قیادت اور جمہویت کے حق میں گزشتہ ہفتے پیش کی گئی قرارداد پیپلز پارٹی کی تجویز کردہ ترمیم کے بعد اکثریت رائے سے منظور کر لی گئی۔

لیکن اس موقع پر مسلم لیگ (ن) سمیت حزب مخالف کی دیگر جماعتوں نے ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔

پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نےحکومتی قرار داد کو ہدف تنقید بنایا۔

’’قرارداد کا مقصد صرف اور صرف ایک تھا کہ وہ چند مخصوص شخصیات کو آئین اور قانون سے بچائے۔‘‘

تاہم وزیر اعظم گیلانی نے ایوان میں کی گئی اپنی تقریر میں کہا کہ قرارداد کا مقصد پارلیمنٹ سمیت تمام ریاستی اداروں کو مزید مضبوط بنانا ہے۔

ادھر پیر کو عدالتی کارروائی کے دوران احتساب کے قومی ادارے ’نیب‘ کے چیئرمین فصیح بخاری نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق عدنان خواجہ، احمد ریاض شیخ اور اسماعیل قریشی سمیت متعدد افراد کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

عدالت کے کہنے پر فیصح بخاری کے وکیل نے کہا کہ وہ نیب کی طرف سے اب تک کے عملی اقدامات کے بارے میں تحریری رپورٹ آئندہ سماعت کے موقع پر عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کر دیں گے۔

XS
SM
MD
LG