بازاری سحریاں، نہ ریستورانوں میں افطاریاں، درزیوں کی سنسان دکانیں اور دوپٹہ رنگنے والوں کی راہ تکتی نگاہیں، خواتین کی چوڑیوں کی دکانوں پر تکرار، نہ مہندی لگوانے والی لڑکیوں کی بھرمار، حلوائیوں کی رنگ برنگی مٹھائیوں کی مانگ اور نہ بیکریوں پر عید کیک کی طلب، مساجد میں نماز عید کے بعد گلے لگنے والا کوئی اور سب سے بڑھ کر گھر آنے کو کوئی تیار اور نہ کوئی اپنے گھر مدعو کرنے پر رضا مند۔
یہ احوال ہے، اس سال منائی جانے والی عید الفطر کا۔ اس صورت حال آغاز پچھلے سال دسمبر میں چین سے پھوٹنے والی وبا سے ہوا۔ تیزی سے پھیلنے والے اس مہلک وائرس نے دنیا بھر میں اتنا خوف و ہراس پھیلا دیا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں بند کر رہ گئے ہیں۔ اور ایک دوسرے سے ملنے سے احتیاط کرتے ہیں کہ کہیں وائرس نہ لگ جائے۔
ماہ رمضان کے بعد عید پر عمومی ایک ایسا ماحول ہوتا ہے کہ ہر شخص جیسے بھی ہو، نئے کپڑے پہن لیتا تھا۔ عید کی صبح کا آغاز میٹھی سویوں سے کرنے کے بعد رشتے داروں، عزیز و اقارب اور دوستوں سے گلے ملنے کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ نماز عید کے بعد عید ملنے والے گلے ملے بغیر جاتے نہیں تھے۔
لیکن اس بار کرونا وائرس کے سبب حالات یہ ہیں کہ مسجد کے امام صاحب، جنہیں گلے ملنے والوں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں۔ اس بار وہ ان سے پناہ مانگ رہے تھے۔ حتی کہ نماز کے بعد گلے لگ جانے والے بھائی اور باپ بیٹا، یہی کہتے ہوئے سنائی دیے۔ عید کا تو دن ہے۔ پر گلے مت ملیے۔
نماز عید کے دوران بلکہ ہر نماز کے دوران امام صاحب کی طرف سے نمازیوں کو صفیں باندھنے سے پہلے ہدایات دی جاتی ہیں کہ کندھے سے کندھا لگا کر کھڑے ہوں اور ایک دوسرے سے فاصلہ نہ رکھیں۔ لیکن اس بار امام صاحب نے نماز کی ادائیگی سے قبل احتیاطی تدابیر کو باور کراتے ہوئے ہدایات دی گئیں کہ ایک دوسرے سے دوری اختیار کریں اور بعد از دعا گلے ملنے سے اجتناب کیا جائے۔
اس عید کی ایک اور مختلف بات یہ تھی کہ شوال کا چاند نظر آنے کا جو اعلان رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمان رات گئے کرتے تھے۔ اس بار وہ اعلان سائنس و ترقی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے دن دیہاڑے ہی کر دیا۔ جس کے بعد چاند دیکھنے کا جو روایتی جوش و جذبہ ہوتا تھا، اسے بھی کرونا کی نظر لگ گئی۔
ہر سال رویت ہلال کے اعلان کے بعد لاہور کے بازاروں میں گہما گہمی ہوتی تھی۔ امید کی جا رہی تھی کہ رویت ہلال کے اعلان کے بعد حکومت کی طرف سے مارکیٹوں کا وقت بڑھا دیا جائے گا۔ تاہم چاند کا اعلان ایسے وقت کیا گیا۔ جب مارکیٹیں بند ہو چکی تھیں۔ جس کی وجہ سے چاند رات کی رونقیں ویسی تو نہ تھیں، جیسی ہر سال ہوتی ہیں۔ تا ہم رات گئے جتنے لاہوری بازاروں کا رخ کر سکتے تھے، وہ پہنچ گئے۔
ویسے تو کہتے ہیں کہ عید تو ہوتی ہی بچوں کی ہے۔ لیکن اس عید پر بچے بھی کرونا وائرس کی وجہ سے شدید پریشان ہیں۔ لگ بھگ دو ماہ سے لاک ڈاؤن میں رہنے کی وجہ سے ان کی حالت اب یہ ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ اس بار عید پر نانی کے گھر بھی نہیں جا سکتے تو ان کی آنکھوں میں ایسا غصہ دکھائی دیا کہ پتہ نہیں کیا کر گزریں۔
اس عید پر والدین نے بچوں کو بہلانے پھسلانے کے لیے زیادہ عیدی کا لالچ بھی دیا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسی عیدی کا کیا فائدہ جو خرچ ہی نہ کی جا سکے۔
اس عید پر محلے گلیوں میں لگنے والے اسٹال اور ٹھیلے بھی غائب رہے۔ گلیوں میں چورن چھولے والا آیا اور نہ رنگ برنگ گولے غنڈے والا۔ بچے جو عیدی سے دھوپ والی عینکیں، رنگا رنگ پرس، جوسز، آئسکریم، بوتلیں اور طرح طرح کی ٹافیاں خریدتے تھے۔ اس سے بھی قاصر رہے۔
لاہور کے وہ علاقے جہاں اب بھی کچھ پرانی روایات باقی ہیں۔ وہاں بچے ان جھولوں کی راہ تکتے رہے۔ جن پر بیٹھ کر وہ اٹلی، اسپین، فرانس اور امریکہ کا تخیلاتی دورہ کرتے تھے۔
حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہوئے مارکیٹیں اور شاپنگ مالز تو کھول دیے تھے۔ لیکن ابھی تک ریستوران اور پارکس نہیں کھولے گئے۔ جس کی وجہ سے والدین بچوں کو تفریح کے لیے پلے ایریاز یا ریستورانوں میں نہ لے جا سکے۔ جہاں کچھ دیر کے لیے وہ بہل جاتے تھے۔
ایسے میں بچوں کے پاس جو آپشن بچتا تھا، وہ نانو کا گھر ہے۔ جہاں جا کر بچے موبائل گیمز اور کارٹون بھول جاتے ہیں۔ مگر اس سال عید پر والدین بچوں کو نانو گھر جانے سے بھی گریزاں رہے اور نانو کے گھر میں رہنے والے ماموں بھی اپنے بھانجے بھانجیوں کو مدعو کرنے کے لیے اتنے پرجوش نہیں تھے، جتنے ہر عید پر ہوتے تھے۔