رسائی کے لنکس

رپورٹرز ڈائری: میری گریجویشن کی 'ورچوئل' تقریب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

گزشتہ منگل کی دوپہر میں بڑے عرصے بعد تھوڑا سا تیار ہوئی تھی۔ ہلکا پھلکا میک اپ کر کے اور بال سنوار کر اپنے اپارٹمنٹ کے برآمدے میں بیٹھی اپنے لیپ ٹاپ کو دیکھ رہی تھی۔

میں تیار تو ہوئی لیکن صرف اتنی کہ 'زوم' کے آئینے میں میرا چہرہ اور میری جیکٹ اچھی نظر آئے۔ باقی حقیقتاً تو میں عام گھریلو لباس اور اسپنج کی چپل پہنے ہوئے تھی۔ کیوں کہ وہ کہاں 'زوم' میں نظر آنی تھی۔

جیکٹ پہننے اور میک اپ کرنے کی واجبی سی ہمت بھی بس اس لیے کی تھی کیوں کہ آج میری 'فل برائٹ ہمپفری فیلوشپ' کی گریجویشن تقریب تھی۔ اور وہ بھی ورچوئل۔

ایک سال بیت چکا ہے لیکن مجھے ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے جب میں فل برائٹ ہمفری فیلوشپ پر گزشتہ برس امریکہ پہنچی تھی۔ اس فیلوشپ میں، میں واحد پاکستانی صحافی تھی جو ابلاغ اور صحافت کے پروگرام کے لیے منتخب ہوئی تھی۔

امریکہ آنے کا مقصد اپنے اندر چھپی ہوئی 'لیڈر شپ کوالٹیز' کو جگانا تھا۔ اپنی صحافتی کارکردگی کو مزید نکھارنے کا جذبہ مجھے امریکہ کی گرم ترین ریاست ایریزونا کے شہر فینکس کے صحافتی اسکول 'والٹر کرونکائٹ اسکول آف جرنلزم' لے آیا تھا۔

سال بھر پڑھنے، سمجھنے اور سیکھنے کے بعد کسی بھی طالب علم کے لیے اس کی گریجویشن تقریب بہت اہمیت رکھتی ہے۔ سو مجھے بھی اس دن کا بہت انتظار تھا۔

لیکن کرونا وائرس نے تو دنیا ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ اسکول اور یونیورسٹیاں بند ہونے کے بعد مجھ سمیت بہت سے طالب علم اپنی زندگی کا سب سے بڑا سنگ میل، جو اسکول سے فارغ التحصیل ہونا ہوتا ہے، اس کی تقریب میں بھی شرکت نہ کر سکے۔

لیکن شکریہ اس ٹیکنالوجی کا کہ ہمیں یہ 'ورچوئل تقریب' دیکھنا تو نصیب ہوئی۔ اگرچہ ہم نے 'زوم ایپلی کیشن' کے ذریعے اس 'ورچوئل' تقریب میں غائبانہ شرکت تو کر لی، لیکن ہمارے کئی ارمان ادھورے بھی رہ گئے۔

نہ ہم نے گریجویشن کیپ پہنی اور نہ ہی گریجویشن روب۔ اس تقریب میں کوئی کیک بھی شامل نہیں تھا۔ مگر یہ تجربہ منفرد اور مختلف رہا۔

ہمارے پروفیسر اور اساتذہ، سب ہی اس تقریب میں شریک تھے۔ ابتداً انہوں نے رسمی خطاب کیے اور ہماری حوصلہ افزائی کی۔ کچھ بین الاقوامی طلبہ جو تعلیمی سال میں تو ساتھ تھے مگر 'کووڈ 19' کے پیشِ نظر جلد ہی اپنے ملکوں کو رخصت ہو گئے تھے، انہوں نے بھی اس تقریب میں شرکت کی۔

یہ تقریب براہِ راست یوٹیوب پر بھی نشر کی جا رہی تھی جس پر تمام طلبہ کے والدین اور عزیز و اقارب سماجی دوری برقرار رکھتے ہوئے تقریب میں شریک تھے۔

تقریب کا رن ڈاؤن پہلے ہی سب کو ای میل کے ذریعے موصول ہو چکا تھا جس کے باعث کسی قسم کی بدانتظامی نہیں ہوئی۔

دوران تقریب میرا پورا تعلیمی سال میری آنکھوں کے سامنے ایک فلیش بیک کی طرح گردش کر رہا تھا۔

دفتر کا کام گھر سے کرنے کا تجربہ کیسا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:29 0:00

جب بھی کلاسز کے دوران یونیورسٹی کے پروفیسرز سے ہماری بات ہوتی تھی، یہ ضرور سننے کو ملتا تھا کہ اس سال امریکہ میں موجود ہونا ہمارے لیے بڑا منفرد اور تاریخی تجربہ ہو گا۔ کیوں کہ ایک طرف تو صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی جاری تھی تو دوسری طرف الیکشن کی گہما گہمی بھی دیکھنے کو مل رہی تھی۔

مگر کس نے سوچا تھا کہ یہ سال ان وجوہات کے باعث نہیں بلکہ وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے تاریخی قرار پائے گا اور وقت ایسی کروٹ لے گا کہ دنیا اس سال کو کرونا کی وجہ سے یاد رکھے گی۔

گزشتہ چند ماہ میں پوری دنیا نے اس وبا کے باعث بہت نقصانات اٹھائے ہیں۔ لاکھوں لوگ اس بیماری میں اپنی زندگی ہار بیٹھے ہیں۔ بہت سے گھرانے اپنے پیاروں کے چلے جانے سے غمگین ہیں تو کروڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔

ہم بھی کرونا وائرس کی وجہ سے گریجویشن تقریب سے محروم رہ جاتے۔ لیکن 'ایریزونا یونیورسٹی' کا بھلا ہو کہ ان کی بدولت ورچوئل ہی سہی، آخرکار ہم فارغ التحصیل تو ہوئے۔

XS
SM
MD
LG