رسائی کے لنکس

نیا 'سینسرڈ پاکستان' نامنظور


بلاول بھٹو قومی اسمبلی میں تقریر کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
بلاول بھٹو قومی اسمبلی میں تقریر کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نیا پاکستان، ’سینسرڈ پاکستان‘ ہے جو ہمیں منظور نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے پاکستان میں آزادی ہی نہیں ہے۔ نہ عوام آزاد ہیں نہ ہی سیاست آزاد ہے۔ سینسرشپ اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ مائیک بند کر دیے جاتے ہیں۔

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمیں نہ میڈیا سینسر شپ قبول، نہ کٹھ پتلی کی غلامی قبول ہے، نہ ہی سیاسی سینسرشپ قبول ہے اور نیا پاکستان ’سینسرڈ پاکستان‘ ہے جو ہمیں نامنظور ہے۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ جو کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ سینسر شپ سے ماحول بہتر ہو گا، انہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ آپ صرف آگ پر مزید تیل ڈال رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سینسرڈ پاکستان مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ ایک آزاد پاکستان اس کا حل ہے۔

حکومت اپوزیشن کرے گی تو حکمرانی کون کرے گا!

بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کی غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر نے قومی اسمبلی میں ’ سلیکٹڈ ‘ لفظ کے استعمال پر پابندی عائد کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم سیلیکٹڈ نہیں تو انتخابی دھاندلی کے لیے کمیٹی کیوں بنائی گئی؟

پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اپوزیشن کی تنقید برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت اپوزیشن کرے گی اور اپوزیشن بھی اپوزیشن کرے گی تو پھر حکمرانی کون کرے گا۔

پی ٹی ایم اراکین کے پروڈکشن آرڈرز کا معاملہ

وزیرستان سے منتخب دو اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کیے جانے پر اسپیکر قومی اسمبلی اور بلاول بھٹو کے درمیان مکالمہ ہوا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ اراکین کو اسمبلی میں پیش نہ کیا جانا بھی سینسرشپ ہوتا ہے۔

انہوں نے گرفتار اراکین اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے ارکان کو اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے آصف زرداری اور خواجہ سعد رفیق کو اسمبلی کاروائی میں شریک کرنے کے اسپیکر کے فیصلے کو سراہا اور مطالبہ کیا کہ وزیرستان کے دو ارکان کے پروڈکشن آرڈرز بھی جاری کیے جائیں۔

اسپیکر نے جواب دیا کہ انہیں ہفتے کے روز دو گرفتار اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے متعلق درخواست ملی ہے جسے انہوں نے وزارت قانون کو بھیجا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اسپیکر کو وزارت قانون سے پوچھنے کی ضرورت نہیں اور اسپیکر پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں خود بااختیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ ممبران، اسمبلی کاروائی کا حصہ نہیں بنتے تو تاریخ میں لکھا جائے گا کہ بجٹ کی منظوری کے وقت وزیرستان کی نمائندگی نہیں تھی۔

حکومت بجٹ واپس لے

بجٹ پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ نہ صرف صوبائی مختاری داؤ پر لگائی گئی ہے بلکہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ملکی معیشت بھی داؤ پر لگا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی، آئی ایم ایف کا بجٹ‘ امیر کو ریلیف دیتا ہے اور غریب پر بوجھ ڈالتا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ غریب کے لیے ٹیکسز کا طوفان، مہنگائی کی سونامی اور بے روزگاری، جب کہ چوروں اور ڈاکوؤں کے لیے ایمنسٹی اسکیم ہے۔

بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا کہ حکومت عوام دشمن بجٹ واپس لے۔ اپنا نیا پاکستان واپس لے اور قائد کا پاکستان ہمیں واپس دے۔

’خان کے دور میں معیشت بدتر ہوئی‘

انہوں نے کہا کہ کفایت شعاری کے نام پر گاڑیاں نیلام کی گئیں۔ بھینسیں گائے بیچ دیں لیکن بجٹ میں وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے اخراجات بڑھا دیے گئے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ کہتے تھے کہ جب وزیراعظم ایمان دار ہو گا اور ہینڈ سم ہو گا تو پھر ٹیکسز خود بخود آ جائیں گے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور زرمبادلہ میں اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن ہوا کیا ہے، نہ زر مبادلہ نے اپنا ہدف پورا کیا اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 50 فیصد کمی آئی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے کوئی بھی معاشی ٹارگٹ حاصل نہیں کیا۔ جب سے خان آیا ہے معیشت کی حالت خراب تر ہو گئی ہے۔

آپ کو گھر جانا ہو گا

بلاول نے کہا کہ حکومتی اقدامات سے ہر ادارہ دباؤ میں ہے۔ ججز کے خلاف ریفرنس، نیب چیئرمین کے خلاف وزیراعظم کے دفتر سے سازش ہوتی ہے۔ آپ کی حکومت میں تھوڑا انصاف ہونا چاہیے۔ آپ کو جمہوری راستوں پر چلنا پڑے گا ورنہ آپ کو گھر جانا پڑے گا۔

قرضہ تحقیقاتی کمشن غیر آئینی ہے

بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قرضوں کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کو غیر آئینی قرار دیا۔ ان کے مطابق پارلیمنٹ بالادست ہے اور جو ادارے اس ایوان کو جوابدہ ہیں وہ کیسے اس ایوان کا احتساب کر سکتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں پانچ ہزار ارب روپے قرض لیے جو کہ مسلم لیگ ن کی اسپیڈ سے بھی زیادہ ہیں۔

بلاول بھٹو نے سوال اٹھایا کہ روزانہ پندرہ ارب روپے کے قرضے لینے والے کس منہ سے قرضے کا حساب مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت پہلے خود لیے گئے غیر ملکی قرضوں کا حساب دے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ نیب کی بلاجواز کارروائیاں اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اور نہ ہی لوگوں کو خوفزدہ کر کے ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہمارے جمہوری، انسانی اور معاشی حقوق سلب کرنے کے بعد اب ہمارے پارلیمانی حقوق سلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ غیرآئینی طور پر قرضے کی تحقیقات سے متعلق کمشن کیوں بنایا گیا۔

XS
SM
MD
LG