قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن اراکین کی جانب سے نعرے بازی اور احتجاج کے باعث بجٹ اجلاس کی کارروائی میں خلل پڑتا رہا۔ اپوزیشن ارکان اسپیکر سے آصف علی زرداری اور دیگر گرفتار اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے مطالبے پر مسلسل نعرے بازی کرتے رہے جس کے جواب میں حکومتی اراکین نے بھی شور مچا کر قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو بجٹ تقریر نہیں کرنے دی۔
ناراض حکومتی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے صدر سردار اختر مینگل بھی اپوزیشن کے احتجاج میں شامل ہو کر اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف آج مسلسل دوسرے روز بھی بجٹ پر اپنی تقریر مکمل نہیں کر سکے، جس کی اہم وجہ حکومتی بنچوں کی جانب سے ان کے خلاف ہونے والی نعرے بازی اور شور تھا۔
شہباز شریف نے جب اپنی تقریر کا آغاز کیا تو حکومتی اراکین اسمبلی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور چند اراکین اسپیکر کے ڈائس کے سامنے آ کر ان کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ اسپیکر نے ارکان کو اپنی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے متعدد بار کہا۔ جب وہ نہیں مانے تو انہوں نے اجلاس کل تک کے لیے ملتوی کر دیا۔
تحریک انصاف کے ایک وفاقی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی جماعت کے اراکین نے ایک حکمت عملی کے تحت شہباز شریف کی تقریر کے دوران نعرے بازی کی۔ اس کا مقصد وزیر مملکت حماد اظہر کے بجٹ پیش کرنے کے موقع پر اپوزیشن کے احتجاج کا جواب دینا تھا۔
شہباز شریف نے اپنی تقریر کے آغاز میں آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق کو ایوان میں پیش کرنے کے احکامات جاری کرنے کا مطالبہ کیا جس پر اسپیکر نے کہا کہ وہ قواعد کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔
جب شہباز شریف نے بجٹ پر بات شروع کی تو حکومتی ارکان نے شور مچانا شروع کر دیا۔ جس پر سپیکر نے اجلاس کل منگل تک ملتوی کر دیا۔
پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ گرفتار ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کرتے تو پھر آپ کا رویہ جانب دارانہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔
اجلاس کے آغاز سے قبل پیپلز پارٹی اراکین اسمبلی نے اسپیکر چیمبر کے سامنے بیٹھ پر احتجاج کیا اور اسد قیصر کو تقریباً ایک گھنٹے تک ایوان میں جانے سے روکے رکھا۔