اسلام آباد —
پاکستان میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے طویل مشاورتی عمل کے بعد ملک میں انسداد دہشت گردی سے متعلق ایک مؤثر اور با اختیار ادارے کے قیام کے لیے وفاق سے ایک مجوزہ بل منظور کرایا ہے۔
وفاقی کابینہ کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں ’ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ‘ قائم کرنے کے بل کے مسودے کی منظوری دی جسے اب قانون سازی کے لیے پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
ملک کو گزشتہ ایک دہائی سے بد ترین دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس لعنت سے نمٹنے کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے ایک ایسے ادارے کے قیام پر زور دیا جا رہا تھا جو تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین رابطے کا کردار ادا کر سکے۔
اس مجوزہ بل کی اہمیت بتاتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ملک کی تمام انٹیلیجنس ایجنساں، وفاقی و صوبائی حکومتیں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف اپنے اپنے طور پر موثر کارروائیاں کر رہے ہیں لیکن ان کے مابین مؤثر رابطے کے لیے ایک قومی ادارے کی اشد ضرورت تھی جو ان کے بقول نئی اتھارٹی کے قیام سے پوری ہو جائے گی۔
’’کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا جس میں سارے فریقوں کی مشاورت کے بعد ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے اور طویل المدت حکمت عملی کو آگے بڑھایا جائے جس میں نصاب کی تبدیلیاں بھی ہو سکتی ہیں، مدارس میں جدید تعلیم کے رواج کی بات ہو سکتی ہے تو اس (اتھارٹی) کے کئی سارے پہلو ہیں۔‘‘
دفاعی تجزیہ کار اور سابق وفاقی وزیر داخلہ معین الدین حیدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اتھارٹی کی بہت عرصے سے ضرورت تھی اور وفاقی کابینہ کی طرف سے مجوزہ بل کی منظوری ایک مثبت پیش رفت ہے۔
’’یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں گواہان کے تحفظ سمیت بہت سے پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ججوں، تفتیشی اداروں، پولیس اور انتظامیہ کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان کا حل اس میں تلاش کیا گیا ہے۔‘‘
اراکین پارلیمان اور مبصرین اس امر کی نشاندہی کرتے آئے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان میں مؤثر منصوبہ بندی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے پاکستانی فوج کو ان علاقوں پر کنٹرول برقرار رکھنا پڑ رہا ہے جہاں سے اس نے طالبان شدت پسندوں کو مار بھگایا ہے۔ تاہم وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ نئی مجوزہ اتھارٹی کے قیام کے بعد ان مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
وفاقی کابینہ کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں ’ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ‘ قائم کرنے کے بل کے مسودے کی منظوری دی جسے اب قانون سازی کے لیے پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
ملک کو گزشتہ ایک دہائی سے بد ترین دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس لعنت سے نمٹنے کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے ایک ایسے ادارے کے قیام پر زور دیا جا رہا تھا جو تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین رابطے کا کردار ادا کر سکے۔
اس مجوزہ بل کی اہمیت بتاتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ملک کی تمام انٹیلیجنس ایجنساں، وفاقی و صوبائی حکومتیں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف اپنے اپنے طور پر موثر کارروائیاں کر رہے ہیں لیکن ان کے مابین مؤثر رابطے کے لیے ایک قومی ادارے کی اشد ضرورت تھی جو ان کے بقول نئی اتھارٹی کے قیام سے پوری ہو جائے گی۔
’’کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا جس میں سارے فریقوں کی مشاورت کے بعد ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے اور طویل المدت حکمت عملی کو آگے بڑھایا جائے جس میں نصاب کی تبدیلیاں بھی ہو سکتی ہیں، مدارس میں جدید تعلیم کے رواج کی بات ہو سکتی ہے تو اس (اتھارٹی) کے کئی سارے پہلو ہیں۔‘‘
دفاعی تجزیہ کار اور سابق وفاقی وزیر داخلہ معین الدین حیدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اتھارٹی کی بہت عرصے سے ضرورت تھی اور وفاقی کابینہ کی طرف سے مجوزہ بل کی منظوری ایک مثبت پیش رفت ہے۔
’’یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں گواہان کے تحفظ سمیت بہت سے پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ججوں، تفتیشی اداروں، پولیس اور انتظامیہ کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان کا حل اس میں تلاش کیا گیا ہے۔‘‘
اراکین پارلیمان اور مبصرین اس امر کی نشاندہی کرتے آئے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان میں مؤثر منصوبہ بندی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے پاکستانی فوج کو ان علاقوں پر کنٹرول برقرار رکھنا پڑ رہا ہے جہاں سے اس نے طالبان شدت پسندوں کو مار بھگایا ہے۔ تاہم وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ نئی مجوزہ اتھارٹی کے قیام کے بعد ان مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔