اسلام آباد —
پاکستانی اور برطانیہ کے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائیں دلوانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قوانین میں موجودہ حالات کے مطابق ترامیم اور ججوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔
اسلام آباد میں بدھ کو منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب میں ماہرین قانون نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ایسے موثر قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے جن سے بنیادی انسانی حقوق متاثر نا ہوں۔
مباحثے کا اہتمام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احمد بلال محبوب نے کہا کہ قانونی ڈھانچے میں ایسی ترامیم کی ضرورت ہے جن کی موجودگی میں حقیقی مجرم سزاؤں سے نا بچ سکیں۔
’’دہشت گردی ایک ایسا چیلنج ہے جس سے صرف سکیورٹی فورسز کے لیے نمٹنا ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے مضبوط قانونی ڈھانچے کی ضرورت ہےجس کے تحت عدالتیں دہشت گردی سے متعلق مقدمات سے موثر طور پر نمٹ سکیں۔‘‘
برطانیہ میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے سابق مبصر اور ماہر قانون لارڈ ایلکس کارلائیل نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائیں دلوانے کے لیے ضروری ہے کہ ججوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ بلا خوف و خطر اپنے فیصلے سنا سکیں۔
’’جج کے لیے مخصوص شعبے میں مہارت انتہائی ضروری ہے اور میں اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتا کہ کوئی بھی جج دہشت گردی کے مقدمات سن سکتا ہے… ججوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھا سکیں۔‘‘
پاکستان کو ایک دہائی سے زائد عرصے سے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 35 ہزار سے زائد افراد بشمول سکیورٹی اہلکار پرتشدد حملوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اس لڑائی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے حوالے سے آئے روز بیانات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن اس مسئلے سے نمٹنے اور مشتبہ شدت پسندوں کو عدالتوں سے سزائیں دلوانے کے لیے تاحال کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان کی کابینہ نے حال ہی میں انسداد دہشت گردی کے قوانین میں ترمیم کی منظوری دی ہے لیکن ابھی تک اس مسودے کو منظوری کے لیے پارلیمان میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔
مزید برآں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری حالیہ ہفتوں میں اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے جج بھی دہشت گردی سے متعلق مقدمات تیزی سے نمٹا رہے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ مشتبہ افراد کو سزائیں دلوانے کے لیے ضروری ہے کہ تفتیش کا عمل پوری جانچ کے بعد مکمل کیا جائے اور تحقیقی افسران نا قابل تردید شواہد کے ہمراہ ملزمان کو عدالتوں میں پیش کریں تاکہ انھیں سزائیں دی جا سکیں۔
اسلام آباد میں بدھ کو منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب میں ماہرین قانون نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ایسے موثر قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے جن سے بنیادی انسانی حقوق متاثر نا ہوں۔
مباحثے کا اہتمام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احمد بلال محبوب نے کہا کہ قانونی ڈھانچے میں ایسی ترامیم کی ضرورت ہے جن کی موجودگی میں حقیقی مجرم سزاؤں سے نا بچ سکیں۔
’’دہشت گردی ایک ایسا چیلنج ہے جس سے صرف سکیورٹی فورسز کے لیے نمٹنا ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے مضبوط قانونی ڈھانچے کی ضرورت ہےجس کے تحت عدالتیں دہشت گردی سے متعلق مقدمات سے موثر طور پر نمٹ سکیں۔‘‘
برطانیہ میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے سابق مبصر اور ماہر قانون لارڈ ایلکس کارلائیل نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائیں دلوانے کے لیے ضروری ہے کہ ججوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ بلا خوف و خطر اپنے فیصلے سنا سکیں۔
’’جج کے لیے مخصوص شعبے میں مہارت انتہائی ضروری ہے اور میں اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتا کہ کوئی بھی جج دہشت گردی کے مقدمات سن سکتا ہے… ججوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھا سکیں۔‘‘
پاکستان کو ایک دہائی سے زائد عرصے سے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 35 ہزار سے زائد افراد بشمول سکیورٹی اہلکار پرتشدد حملوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اس لڑائی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے حوالے سے آئے روز بیانات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن اس مسئلے سے نمٹنے اور مشتبہ شدت پسندوں کو عدالتوں سے سزائیں دلوانے کے لیے تاحال کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان کی کابینہ نے حال ہی میں انسداد دہشت گردی کے قوانین میں ترمیم کی منظوری دی ہے لیکن ابھی تک اس مسودے کو منظوری کے لیے پارلیمان میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔
مزید برآں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری حالیہ ہفتوں میں اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے جج بھی دہشت گردی سے متعلق مقدمات تیزی سے نمٹا رہے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ مشتبہ افراد کو سزائیں دلوانے کے لیے ضروری ہے کہ تفتیش کا عمل پوری جانچ کے بعد مکمل کیا جائے اور تحقیقی افسران نا قابل تردید شواہد کے ہمراہ ملزمان کو عدالتوں میں پیش کریں تاکہ انھیں سزائیں دی جا سکیں۔