رسائی کے لنکس

انسداد دہشت گردی قوانین میں ترامیم کے لیے صوبوں سے سفارشات طلب


قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں ملزمان کو سزائیں دلوانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ عدم تحفظ کے باعث گواہوں کا سامنے آ کر شہادت دینے سے ہچکچاہٹ ہے۔

پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں گرفتار کیے جانے والے سینکڑوں مشتبہ شدت پسندوں کو عدالتوں سے سزائیں دلوانے کے لیے حکومت نے انسداد دہشت گردی کے قوانین میں ترامیم کے لیے مشاورتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

اب تک ان مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف مقدمات درج کر کے انھیں سزا دلوانے کی کوششیں زیادہ تر موثر ثابت نہیں ہو سکی ہیں کیوں کہ متعلقہ قوانین میں خامیوں کا فائدہ اٹھا کر یا تو ملزمان رہا ہو جاتے ہیں یا پھر ان کے خلاف عدالتی کارروائی غیر معمولی طوالت کا شکار ہوجاتی ہے۔

ملک میں مختلف حلقوں بشمول عسکری قیادت انسداد دہشت گردی کے قوانین میں موثر اصلاحات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں کیوں کہ ملزمان کو سزا دلوائے بغیر ان کے خیال میں شدت پسندی کے خلاف میدان جنگ میں حاصل کی جانے والی کامیابیاں دیرپا ثابت نہیں ہو سکتیں۔

بظاہر انھی خدشات کے پیش نظر وفاقی حکومت کی طرف سے اب صوبوں کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جلد از جلد اس ضمن میں اپنی سفارشات مرتب کر کے مرکز کو بھیج دیں تاکہ قانون سازی کے عمل میں پیش رفت ہو سکے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں ملزمان کو سزائیں دلوانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ عدم تحفظ کے باعث گواہوں کا سامنے آ کر شہادت دینے سے ہچکچاہٹ ہے۔

شمال مغربی خیبر پختون خواہ میں حال ہی میں زیر حراست مشتبہ جنگجوؤں کو خصوصی طور پر کھولے گئے تین حراستی مراکز میں منتقل کیا گیا ہے جہاں ان سے مفصل تفتیش کے بعد اُن کے خلاف باضابطہ مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ اعلیٰ فوجی عہدیداروں سے مشاورت کے بعد یہ حراستی مراکز لکی مروت، کوہاٹ اور مالا کنڈ ڈویژن میں قائم کیے گئے ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل چوہدری محمد جہانگیر نے بھی انسداد دہشت گردی کے قوانین میں فوری ترامیم کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

’’قانون سازی کی ضرورت تو ہے کیوں کہ موجودہ قانون جب بنا تھا تو اس وقت حالات ایسے نہیں تھے جیسے اب ہیں۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ خاص طور پر دہشت گردی کی وارداتوں کی تحقیقات کے لیے قانون سازی کے علاوہ انتظامی اقدامات بھی نا گزیر ہیں۔

’’تحقیق کا معیار ہے اس کو بہتر بنایا جا رہا ہے کہ جو نئی فرانزک تکنیک ہے ان کو جلد سے جلد روشناس کروایا جائے اور جو شواہد دستیاب ہوتے ہیں ان کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور زیادہ سے زیادہ افراد کو سزائیں دلوائی جائیں۔‘‘

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے حال ہی میں انسدادِ دہشت گردی کے ترمیمی بل 2012ء کی منظوری دی، جس کا مقصد دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے مالی وسائل کی دستیابی کی حوصلہ شکنی ہے۔

ترمیمی بل کے تحت کالعدم انتہاپسند تنظیموں کے علاوہ اندرون و بیرون ملک دہشت گردوں سے روابط رکھنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ ان کی مالی معاونت کرنے والوں کے اثاثہ جات ضبط کیے جا سکیں گے لیکن یہ ابھی تک پارلیمان سے منظور نہیں ہو سکا ہے۔
XS
SM
MD
LG