پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے صدر اشرف غنی کی طرف سے 28 فروری کو ’کابل پراسس‘ کانفرنس میں طالبان کو امن مذاکرات کی دعوت اور مصالحتی عمل کے منصوبے کی حمایت کو دہرایا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا ہے کہ طالبان پر مشترکہ طور پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ وہ تشدد ترک کے امن عمل میں شامل ہوں۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے یہ بیان ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں افغانستان سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں منگل کو دیا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے علاقائی کوششوں کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نے اس سلسلے میں ازبکستان کی حکومت کی کوششوں کو بھی سراہا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان مسئلے کا حل سیاسی مذاکرات کے ذریعے تلاش کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا اور افغانستان میں امن و استحکام کا قیام بین الاقوامی برداری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
افغان اُمور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ کم ہوا ہے، اس لیے اسلام آباد سمجھتا ہے کہ اگر وہ تمام ممالک کردار ادا کریں جن کا طالبان پر کچھ نہ کچھ اثر ہے تو بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔
’’پاکستان کی اکیلے بس کی بات نہیں ہے۔ ایران تعاون کرے، قطر تعاون کرے، چین بھی کوشش کرے اور پھر افغانستان کی حکومت طالبان کے لیے مزید مراعات کا اعلان کرے یا پھر امریکہ جو ہے وہ کچھ عرصے کے لیے طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے۔ پھر میرے خیال میں کچھ امکانات بڑھیں گے۔‘‘
کانفرنس سے اپنے خطاب میں خواجہ آصف نے داعش کے پھیلاؤ اور افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں اضافے پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور تجویز دی کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ نیٹ ورکس کی سرحدوں کے آر پار آمد و رفت کو روکنے کے لیے افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان تعاون کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نے "پاکستان اور افغانستان ایکشن پلان برائے امن و اتحاد" نامی مجوزہ منصوبے کا ذکر بھی کیا جو کہ سکیورٹی سے متعلق تعاون، انسدادِ دہشت گردی، سرحد کی نگرانی اور افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق ہے۔
28 فروری کو ’کابل پراسس‘ کانفرنس کے بعد افغانستان سے متعلق یہ پہلا کثیر الملکی اجلاس تھا جس کی میزبانی تاشقند نے کی۔ اجلاس میں افغان صدر اشرف غنی، امریکہ اور چین کے نمائندوں سمیت 20 ممالک کے مندوبین شریک تھے۔