رسائی کے لنکس

افغانستان میں امن و مصالحت پر ازبکستان میں کانفرنس شروع


Las calles y avenidas alrededor del Capitolio han sido bloqueadas, seis días después del asalto al edificio por seguidores del presidente Donald Trump y en preparación para la toma de posesión del demócrata Joe Biden el 20 de enero.
Las calles y avenidas alrededor del Capitolio han sido bloqueadas, seis días después del asalto al edificio por seguidores del presidente Donald Trump y en preparación para la toma de posesión del demócrata Joe Biden el 20 de enero.

ازبکستان میں ہونے والی کانفرنس کا اہم مقصد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہِ راست بات چیت کی راہ ہموار کرنا ہے۔

افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں کے سلسلے میں ازبکستان میں کثیر ملکی کانفرنس شروع ہوگئی ہے جس میں افغان صدر اشرف غنی بھی شرکت کر رہے ہیں۔

کانفرنس میں شریک پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کر رہے ہیں جب کہ اس کانفرنس میں امریکہ اور روس کے نمائندے بھی شریک ہیں۔

ازبکستان میں ہونے والی کانفرنس کا اہم مقصد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہِ راست بات چیت کی راہ ہموار کرنا ہے۔

واضح رہے کہ 28 فروری کو افغانستان میں ہونے والی ’کابل پراسس‘ نامی کانفرنس کے موقع پر صدر اشرف غنی نے طالبان کو امن مذاکرات کی غیر مشروط دعوت دی تھی جسے پاکستان سمیت کئی ممالک نے ایک مثبت اقدام قرار دیا تھا۔

افغان اُمور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ صدر اشرف غنی کی امن تجاویز کے بعد ازبکستان میں ہونے والی یہ کانفرنس اہم ہے۔

"اس میں 20 سے زائد ملکوں کی نمائندگی ہے۔ کچھ بین الاقوامی ادارے ہیں، وہ بھی شرکت کر رہے ہیں۔۔۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم کانفرنس ہے کیوں کہ اس میں امریکہ کی بھی شرکت ہے۔ پہلے جو روس نے کانفرنسوں کی میزبانی کی تھی اس میں امریکہ نے شرکت نہیں کی تھی۔۔۔ یہ ایک نئی کوشش ہے اور ظاہر ہے کہ افغانستان کا مسئلہ بہت پرانا ہے، بہت پیچیدہ ہے، آسانی سے حل نہیں ہو گا۔"

رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے شرکا کی یہی توقع ہو گی کہ طالبان پر دباؤ بڑھایا جائے اور اُنھیں مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔

"پاکستان سے یہی توقع ہے افغانستان کو، امریکہ کو اور باقی ملکوں کو کہ وہ طالبان کو سمجھائیں یا ان کے اوپر دباؤ ڈالیں اور ان کو مذاکرات کی میز پر لائیں. ورنہ پاکستان ان کے خلاف کارروائی کرے. پاکستان نے کہا ہے کہ وہ کوشش کر رہا ہے اور لگتا ہے کہ یہ صرف پاکستان کے بس کی بات نہیں ہے. چین کی بھی کوشش ہے اور طالبان پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔"

رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ ماضی کے برعکس اب پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔

"پاکستان کا طالبان کے اوپر جو اثر ہے وہ کم ہو گیا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے کئی طالبان رہنما, ان کی رہبر شوریٰ کے ارکان پاکستان میں تھے. ابھی ان میں سے کافی... اطلاع یہ ہے کہ افغانستان چلے گئے ہیں۔ کچھ ایران بھی گئے ہیں اور کچھ قطر میں موجود ہیں۔ تو جتنے یہاں پر پہلے سے اہم لوگ تھے ان کے جانے کے بعد پاکستان کا اثر کم ہوا ہے۔"

پاکستان کی حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں میں ہر ممکن تعاون کرتی رہے گی۔

صدر اشرف غنی نے پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کو دورۂ افغانستان کی دعوت بھی دے رکھی ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان ریاست کی سطح پر مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ساتھ افغان امن عمل پر بھی بات چیت کی جا سکے۔

پاکستان کی طرف سے افغان صدر کی دعوت کو مثبت قرار دیا گیا ہے تاہم تاحال پاکستانی وزیرِ اعظم کے مجوزہ دورہ کابل کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG