رسائی کے لنکس

پاکستان اور افغان رہنماؤں کا مشترکہ جرگہ، سرحد پر فائر بندی پر اتفاق


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • مشترکہ جرگے کی کارروائی لگ بھگ دو گھنٹے تک جاری رہی جس میں سرحد پر فائرنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے تجاویز پیش کی گئیں۔
  • سرکاری طور پر دونوں جانب سے سرحد پر مسلح تصادم میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔
  • افغانستان کی طرف سے اس پر بار بار در اندازی ہوتی ہے، بریگیڈیئر شہزاد عظیم
  • افغان پولیس جنرل شیر محمد خان نے حکومتِ پاکستان کو کالعدم شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دیا ہے۔

پشاور _ پاکستان اور افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان سرحد پر لگ بھگ پانچ روز تک فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہفتے کو فائر بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔

دونوں ملکوں کے سرحدی اہلکاروں کے درمیان فائر بندی کا فیصلہ سرحدی گزرگاہ خرلاچی میں ایک جرگے کے دوران ہوا۔ جرگے میں پاکستانی وفد کی قیادت بریگیڈیئر شہزاد عظیم نے کی جب کہ افغان وفد کی قیادت پولیس چیف شیر محمد خان نے کی۔

جرگے میں فیصلہ ہوا کہ قبائلی ضلع کرم اور افغانستان کے سرحدی صوبہ پکتیکا کے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل روایتی جرگہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کو باہمی بات چیت سے حل کرے گا۔

دونوں ملکوں کے سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان 13 مئی کو دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا تھا جو جمعے کی شام تک وقفے وقفے سے جاری تھا۔

مقامی سرکاری عہدیداروں کے جاری کردہ بیان کے مطابق مشترکہ جرگے کی کارروائی لگ بھگ دو گھنٹے تک جاری رہی جس میں سرحد پر فائرنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے تجاویز پیش کی گئیں۔

جرگہ عمائدین نے اس موقع پر مستقل طور پر رابطے قائم کرنے پر زور دیا۔

کرم کے سول اور سیکیورٹی عہدیداروں کے جاری کردہ بیان کے مطابق قبائلی جرگہ میں تین نکات پر اتفاق ہوا ہے جس کی رو سے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے خلاچی گیٹ کو کھولا جائے، تین روز بعد دونوں طرف سے افغان مشیران اور پاکستانی مشیران کا جرگہ منعقد کیا جائے جسمیں تنازعات کے حل کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ تنازعات کے حل کے لیے دونوں اطراف سے ایک ماہ میں کمیٹیاں بنائی جائیں گی جس میں تجارتی کمیٹی الگ اور اقتصادی کمیٹی الگ الگ مسائل پر رابطہ کریں گی۔

سرکاری طور پر دونوں جانب سے سوموار کی شام سے جمعے کی رات تک وقفے وقفے سے جاری مسلح تصادم میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔

البتہ کرم کے مرکزی انتظامی شہر پاڑہ چنار میں حکام اور قبائلی رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ سرحد پار فائرنگ سے لگ بھگ 15 طالبان اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جب کہ افغان اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک اہلکار ہلاک اور سات زخمی ہوئے ہیں۔

سرحد پر دو طرفہ فائرنگ کے باعث 500 سے زائد خاندانوں نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کی تھی جب کہ علاقے میں تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے۔

دونوں ہمسایہ ممالک کے سرحدی علاقوں کے سرکردہ قبائلی رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے بریگیڈیئر شہزاد عظیم نے کہا کہ جب پاکستان کے سول اور سیکیورٹی اہلکار چوکیوں پر کام کر رہے ہیں تو افغانستان کی طرف سے اس پر بار بار در اندازی ہوتی ہے جب کہ پاکستان کی جانب سے کبھی افغانستان کی حدود می تعمیراتی کام میں مداخلت نہیں کی جاتی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سرحد پار افغانستان میں لوگ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور یہی دہشت گرد پاکستان میں بے گناہ لوگوں اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے کرتے ہیں۔

بریگیڈیئر شہزاد عظیم نے کہا کہ ان کا افغانستان کی حکومت یا عوام سے کسی قسم کا تنازع یا جنگ نہیں بلکہ ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کے لوگوں اور حکومت کی جنگ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے کبھی افغانستان کے سیکیورٹی اداروں کے لیے مشکلات پیدا نہیں کیں۔ البتہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران سرحدی علاقوں سپینہ شگا اور تیری منگل کے علاقوں میں افغانستان کی جانب سے دراندازی اور فائرنگ کی جارہی ہیے اور شکایت کے باوجود کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔

قبائلی رہنماؤں سے افغانستان کے پولیس جنرل شیر محمد نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں بھائی ہیں اور امارات اسلامی پاکستان کے لوگوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے مقامی سیکیورٹی اور انتظامی عہدیداروں کو پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطہ کرنے اور ہر قسم کے اختلافات اور تنازعات کو باہمی گفت و شنید سے حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مشترکہ کمیٹیاں بنانے پر زور دیا ہے۔

شیر محمد خان نے حکومتِ پاکستان کو کالعدم شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دیا اور کہا کہ جب تک ٹی ٹی پی ہوگی پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی جاری رہے گی۔

فورم

XS
SM
MD
LG