جہاں پاکستان اور امریکہ نے باہمی تعاون کے لئے اقدامات کئے ہیں، وہاں ان کے تعلقات میں رکاوٹیں بھی آتی رہی ہیں اور اکثر صورتوں میں افغانستان کی جنگ ان پر حاوی رہتی ہے۔ افغانستان میں استحكام کی نئی کوششوں میں، جنوبی ایشیا اور خاص طور پر افغانستان سے متعلق اگست میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک پالیسی اعلان کے بعد، پاکستان کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا جس کے بعد سے واشنگٹن ڈی سی میں مختلف تھنک ٹینک میں پاک امریکہ تعلقات پر بحث ومباحثے جاری ہیں۔
ایسا ہی ایک مباحثہ ’ پاکستان سے کیسے نمٹا جائے، کے عنوان سے ایک امریکی تھنک ٹھینک یوایس انسٹی ٹیوٹ فار پیس کے زیر اہتمام منعقد ہوا جس میں سابق امریکی عہدیدار وں نے شرکت کی اور اپنے رائے کا اظہار کیا۔
پاکستان اور افغانستان کے لئے سابق امریکی ایلچی، لورل ملر کا کہنا تھا کہ ان کی نظر میں پاک امریکہ تعلقات میں تنا ؤ یا بد اعتمادي کی بڑی وجہ، دونوں ممالک کا افغانستان کے بارے میں ایک دوسرے کے نقطہ نظر پر یکسو نہ ہونا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ہیں۔ دونوں ملکوں کو اس ہر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے مگر اب تک اس سلسلے میں زیادہ کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔
موجودہ صورت حال میں امریکہ کو پاکستان کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیئے؟
لارل ملر کا کہنا تھا کہ امریکہ کو چاہیئے صرف پاکستان پر یہ دباؤ نہ ڈالے کہ وہ امریکہ کے تحفظات کو سنجید گی سے لے بلکہ یہ بھی واضح کرنا چاہیئے کہ پاکستان کو اس کے بدلے کیا فائدہ ہوگا یعنی امریکہ پاکستان کے فائدے کے لئے کتنا موثر اور عملی کردار ادا کر سکتا ہے اور یہ کہ پاکستان امریکی مفادات حاصل کرنے میں کیا مدد کر سکتا ہے، بجائے اس کے کہ ساری توجہ اس پر لگائی جائے کہ آپ کا نقطہ نظر غلط ہے اور ہمارا درست۔
افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر، زلمے خلیل زاد کی نظر میں پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک امریکہ کی بھارت سے بڑھتی ہوئی قربت، جو امریکہ، چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے نمٹنے کے لئے کر رہا ہے اور پاکستان کو اس پر اعتراض ہے۔ دوسری وجہ پاکستانی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں۔
اس صور تحال میں، پاکستان کے لئے امریکہ کی پالیسی کیا ہونی چاہیئے؟ زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ موجودہ امریکی حکومت نے جو پالیسی بنائی ہے اس کے کچھ مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور حال ہی میں پاکستان کی جانب سے کچھ مثبت اشارے ملے ہیں مثلا اس نے مغویوں کو بازیاب کرایا اور فوجی سربراہ نے کابل کا دورہ کیا۔ لیکن یہ سب کچھ ہم ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں کہ جب پاکستان پر دباؤ بڑھتا ہے تو وہ حالات کو معمول پر لانے اور امریکہ کی جانب سے دباؤ میں کمی کرنے کے لئے مثبت اشارے دیتا ہے، لیکن یہ سب، کچھ عرصے کے لئے ہوتا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے مزید کہا کہ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ پاکستان سے ایسا روڈ میپ مانگے جو حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر انتہاپسندوں کو ختم کرنے کی پاکستانی ارادے کی تصدیق کرتا ہو ورنہ ان کے بقول امریکہ کا افغانستان میں رہنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔
امریکہ کی سابق نائب وزیر خارجہ، رابن رافیل کا کہنا تھا کہ کافی عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ پاکستان میں موجود دہشت گرد ٹھکانوں کی موجودگی پر تشویش اور دوہری چال چلنے پر افسوس کا اظہار کرتا رہا ہے اور جواب میں پاکستان اس کی ترديد کرتا رہا ہے، اس سے بات آگے نہیں بڑھ پا رہی اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ دونوں ملکوں کو سنجیدہ ہونے کے ضرورت ہے۔ امریکہ کے لئے سنجیدہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پاکستان سے کہے کہ آپ وہ کریں جو ہم چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان کا یہ رد عمل بھی درست نہیں کہ ہمیں امریکہ کی ضرورت نہیں اور یہ کہ ہم روس اور چین سے دوستي بڑھاہیں گے ۔ ان کا کہنا تھا دونوں ملکوں کا یہ طریقہ کار درست نہیں۔ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو سنے اور ساتھ ہی پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے لیے آمادہ کرے کیونکہ حقانی نیٹ ورک کو ختم کئے بغیر افغانستان میں قیام امن کی کوششیں بےسود ہیں۔
انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ امریکہ کو افغانستان میں اچھی طرز حکمرانی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ کہ افغانستان میں ابتر صورت حال کی مکمل ذمہ داری پاکستان پر ڈالنا درست نہیں۔