پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے جمعرات کے روز امریکہ کے پالیسی ساز ادارے یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے بارے میں اعلان کردہ پالیسی کے تناظر میں پاکستان کا نقطہ نظر پیش کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے ساتھ اُن کی بات چیت بہت حوصلہ افزا رہی جس کے دوران ٹلرسن نے دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی پاکستانی کوششوں کو سراہا۔
تاہم امریکی وزیر دفاع جنرل میک ماسٹر کے ساتھ اپنی ملاقات کے حوالے سے خواجہ آصف نے کچھ تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے محتاط انداز میں اسے مفید قرار دیا ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ جنرل میک ماسٹر نے اُن سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک موقع اور دینے کیلئے تیار ہیں تو خواجہ آصف نے کہا کہ امریکہ کے کسی اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے ایسا بیان پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو F-16 طیاروں کی فراہمی روک دی تھی۔ اس کے علاوہ امریکہ نے اُردن کو بھی پرانے F-16 پاکستان کو فراخت کرنے سے منع کر دیا تھا اور ان اقدامات کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کوششوں کو نقصان پہنچایا کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی میں JF Thunder کے ساتھ F-16 طیاروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
خواجہ آصف نے پاک امریکہ تعلقات کا تاریخی منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہر قسم کے مشکل حالات میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے امریکہ اور پاکستان کے مفادات یکساں ہیں۔ اگر افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو پہنچے گا۔ لہذا امریکہ کے کچھ حلقوں کی جانب سے یہ الزام درست نہیں ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ایک وقت میں پاکستان میں 70 لاکھ افغان مہاجرین موجود تھے اور اب بھی پاکستان 35 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ تاہم اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ان افغان مہاجرین کی پاکستان میں آمد امریکی مفادات کی وجہ سے ہوئی اور اب یہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ اُن کی واپسی کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ پاکستانی حکومت تمام تر افغان مہاجرین کو دہشت گرد سمجھتی ہے تو خواجہ آصف نے کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ تاہم افغانستان سے آنے والے دہشت گرد ان افغان مہاجرین کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس لئے یہ سلسلہ بند ہو نا چاہئیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت افغانستان کا 40 فیصد علاقہ ایسا ہے جہاں افغان حکومت کی عملداری نہیں ہے اور وہاں دہشت گردوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ یوں افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکی فوج کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اُنہوں نے ایسی رپورٹوں کا بھی حوالہ دیا کہ افغانستان کی فوج خود طالبان کو اسلحہ فروخت کر رہی ہے جو یقیناً باعث تشویش ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اُنہوں نے اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن سے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستانی سرحد کا 640 کلومیٹر کا علاقہ ایسا ہے جس میں افغانستان کی طرف سے کوئی نگرانی نہیں کی جا رہی ہے اور یہ پاکستان کیلئے باعث تشویش ہے۔ اس وجہ سے پاکستان نے افغانستان کے ساتھ پوری سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ باڑ لگانے اور افغان پناہ گزینوں کو واپس افغانستان بھجوا کر آباد کرنے میں امریکہ کو مالی وسائل فراہم کرنے چاہئیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے ماضی کی متعدد مثالیں دیتے ہوئے امریکہ کو خبردار کیا کہ امریکہ ویت نام کی جنگ میں بھی شکست سے دوچار ہوا تھا اور اسے افغانستان میں بھی شکست کا سامنا ہے اور اب وہ خفت میں پاکستان پر بلا وجہ الزام لگا رہا ہے۔
خواجہ آصف نے زور دے کر کہا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کا ملک سے خاتمہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کی دو لاکھ فوج دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ مذید ایک لاکھ فوج مشرقی سرحد پر متعن ہے جہاں پاکستان کو بھارت سے مسلسل خطرے کا سامنا ہے۔
خواجہ آصف نے لاس ویگس میں ہونے والے حالیہ قتل عام کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ تاہم امریکہ اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار نہیں دیتا اور یہ بات ناقابل فہم ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان امریکہ سے کسی مالی یا مادی فائدے کا خواہاں نہیں ہے لیکن پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کو ختم کرنے اور علاقے میں قیام امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرے۔
پاکستان میں موجود مدرسوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اُنہیں دنیا کی سب سے بڑی NGO قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں 20,000 کے لگ بھگ مدرسے موجود ہیں جنہوں نے بچوں کو رہائش، خوراک اور تعلیم فراہم کر کے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ تاہم ان میں سے ایسے مدرسے صرف تین سے چار سو کے درمیان ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے فروغ میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ یہ تعداد زیادہ نہیں ہے اور پاکستانی حکومت آسانی سے اُن کی کڑی نگرانی کر سکتی ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں امریکی خدشات کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک اور اس طرح کے کچھ اور تنظیمیں ملک پر بوجھ ہیں اور اُنہیں مکمل طور پر ختم کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے لاس ویگس کے واقعے کے پس منظر میں سامنے آنے والی گن گنٹرول کی بحث کے ساتھ اس کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل نہیں کر سکتا اور اس کیلئے کافی وقت درکار ہو گا۔ اسی طرح پاکستان میں موجود حقانی گروپ اور ایسے دیگر عناصر کے خاتمے کیلئے بھی وقت درکار ہے۔
پاکستان میں جاری سیاسی بحران کا ذکر کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ملک میں جمہویت مضبوط ہے، عدلیہ آزاد ہے، میڈیا فعال ہے اور فوج اور حکومت کے درمیان ورکنگ تعلقات قائم ہیں۔ لیکن پاکستان میں کوئی بڑا بحران موجود نہیں ہے اور حکومت وہاں موجود مسائل پر قابو پا لے گی۔