رسائی کے لنکس

افغانستان میں سفارتی عملے کا تحفظ اولین ترجیح ہے: پاکستان


وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل نے کہا کہ ہم نے اپنے تحفظات سے افغانستان میں متعلقہ حکام کو آگاہ کر دیا ہے۔

پاکستان نے کہا ہے کہ اُس نے افغانستان میں اپنے سفارتی عملے کی سلامتی سے متعلق خدشات سے افغان حکومت کو آگاہ کیا ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ افغانستان میں پاکستانی سفارتی عملے اور سفارت و قونصل خانوں کا تحفظ پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔

’’ہم نے اپنے تحفظات سے افغانستان میں متعلقہ حکام کو آگاہ کر دیا ہے اور ہمیں یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ہمارے سفارتی عملے اور عمارتوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اُدھر اطلاعات کے مطابق کابل میں تعینات پاکستانی عملے کے وہ افراد جو سفارت خانے کی عمارت کے باہر رہائشی علاقوں میں مقیم تھے وہ سلامتی کی خدشات کے باعث اب سفارت خانے کی عمارت میں منتقل ہو گئے ہیں تاہم اس بارے میں سرکاری طور کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سلامتی کی صورت حال کے باعث افغانستان میں تعینات پاکستانی عملے کے ساتھ اُن کے اہل خانہ نہیں رہتے۔

قاضی خلیل نے کہا کہ پاکستان کے بارے میں افغانستان کے میڈیا میں جاری منفی مہم اور الزام تراشی پر پاکستان پہلے ہی تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی اسلام آباد میں تعینات افغانستان کے سفیر جانان موسیٰ زئی کو وزارت خارجہ بلا کر اُن سے کہا گیا تھا کہ افغانستان میں پاکستانی عملے، سفارت و قونصل خانوں کی عمارتوں اور پاکستانی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔

گزشتہ ہفتے ہی سرحد پر فائرنگ و گولہ باری میں دونوں جانب جانی نقصان کے بعد پہلے افغانستان نے کابل میں تعینات پاکستان کے سفیر کو طلب کے احتجاج کیا تھا، جب کہ اُس کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ میں افغان سفیر کو طلب کیا گیا۔

افغانستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ ہفتوں میں پاکستان مخالف احتجاجی مظاہروں کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔

جب کہ کابل میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد افغانستان کی طرف سے پاکستان پر ایک بار پھر الزامات بھی لگائے گئے۔

رواں ماہ کے اوائل میں افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ انھیں معلوم ہے کہ طالبان کی پناہ گاہیں اب بھی پاکستان میں موجود ہیں اور وہ وہاں سرگرم ہیں۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کو بھی اسی نظر سے دیکھے جس طرح وہ اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی کو دیکھتا ہے۔

گزشتہ سال ستمبر میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ اشرف غنی کی طرف سے پاکستان سے براہ راست اس طرح شکایت کی گئی۔

یاد رہے کہ جولائی میں پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی کی تھی اور اس امن عمل کے سلسلے کی دوسری ملاقات بھی جولائی کے اواخر میں پاکستان میں ہی ہونا تھی۔

لیکن طالبان کے امیر ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد یہ ملاقات موخر کر دی گئی اور طالبان نے ملا اختر منصور کو اپنا نیا امیر مقرر کیا۔

نئے امیر کے تقرر کے ساتھ ہی افغان طالبان کے مختلف دھڑوں میں اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئیں اور افغانستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔

XS
SM
MD
LG