|
اسلام آباد _ پاکستان میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے لیکن ایک سال بعد بھی قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مختص 226 نشستوں میں سے 77 نشستیں تاحال خالی ہیں۔
حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) انتخابات کے ایک سال مکمل ہونے پر ہفتے کو یومِ سیاہ منا رہی ہے جب کہ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی انتخابی نتائج پر آج تک انگلیاں اٹھا رہی ہیں۔
پاکستان میں انتخابات کو مانیٹر کرنے والی غیرسرکاری تنظیم فافن کے نیشنل کوآرڈینیٹر رشید چوہدری کہتے ہیں کہ مخصوص نشستیں خالی ہونے سے آئینی طور اسمبلی کی کارروائی متاثر نہیں ہوتی لیکن اس کے باعث اسمبلیوں میں 30 فی صد خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں پُر کرنے میں تیزی دکھانے کی ضرورت ہے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق قومی اسمبلی میں 19 خواتین اور تین اقلیتوں کی نشستیں خالی ہیں جب کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں 21 خواتین اور 4 اقلیتوں کی نشستوں پر تاحال ارکان کا انتخاب نہیں ہو سکا ہے۔
اسی طرح پنجاب اسمبلی میں 24 خواتین اور 3 اقلیتوں کی نشستیں خالی ہیں،سندھ اسمبلی میں دو خواتین اور ایک اقلیت کی نشست خالی یا سنی اتحاد کے حصے کی نشستوں پر آنے والے اراکین کی رکنیت معطل ہے۔
اس وقت قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مجموعی طور پر 152 خواتین موجود ہیں جن میں 26 خواتین براہِ راست منتخب ہو کر آئی ہیں۔
مخصوص نشستوں پر تنازع کیا ہے؟
آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات میں انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا تھا۔جس کے باعث پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے مختلف انتخابی نشانات پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تھا۔
عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی کے بعد جب مرحلہ سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا آیا تو پی ٹی آئی کی حمایت سے کامیاب ہونے والے اراکین نے مخصوص نشستوں میں حصہ حاصل کرنے کے لیے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔
تاہم موجودہ حکومتی اتحاد کی جماعتوں نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی الیکشن کمیشن میں مخالفت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ سنی اتحاد کونسل پالیمانی جماعت نہیں ہے اس لیے اسے مخصوص نشستیں الاٹ نہیں ہوسکتیں ۔
اس دوران الیکشن کمیشن نے 22 فروری 2024 کو مخصوص نشستوں کا نوٹی فکیشن جاری کیا ۔ جس کے تحت قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے مختص مجموعی طور پر 60 نشستوں میں سے متوقع طور پر جیتی گئی جنرل نشستوں کے حساب سے سنی اتحاد کے حصے کی نشستوں کے علاوہ 40 نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کردیں اور نوٹی فکیشن میں لکھا کہ سنی اتحاد کونسل کو نشستیں الاٹ کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس پینڈنگ ہے ۔
اس طرح قومی اسمبلی میں دس اقلیتی نشستوں میں سے سات دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کے بعد متوقع طور پر سیٹوں کے حساب سے سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آنے والی تین اقلیتی نشستیں چھوڑ دی گئی ۔
یہی طریقہ صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے لیےاختیار کیا گیا۔
پنجاب اسمبلی میں 22 فروری کو ہی خواتین کی 66 مخصوص نشستوں میں سے 42 اور اقلیتوں کی آٹھ نشستوں میں سے پانچ نشستیں سنی اتحاد کونسل کے علاوہ دیگر جماعتوں کو الاٹ کی گئی۔
سندھ اسمبلی میں بھی خواتین کی 29 مخصوص نشستوں میں سے 27 اور اقلیت کی 9 نشستوں میں سے 8 نشستیں سنی اتحاد کے علاوہ دیگر جماعتوں کو الاٹ کی گئی۔
البتہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں خواتین کے لیے مختص 26 نشستوں میں سے جیتی ہوئی نشستوں کی بنیاد پر دیگر جماعتوں کو صرف 5 نشستیں الاٹ کی گئی اور باقی نشستیں سنی اتحاد کے فیصلے تک رکھ دی گئی۔
اس طرح کے پی اسمبلی میں اقلیت کی کوئی نشست سنی اتحاد کے علاوہ کسی پارٹی کو الاٹ نہیں کی گئی جب کہ بلوچستان اسمبلی میں خواتین کی مخصوص 11 اور اقلیت کی تینوں نشستیں سنی اتحاد کے علاوہ دیگر پارٹیوں کو دی گئی۔
بعدازاں الیکشن کمیشن نے چار مارچ 2024 کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اس کی 77 مخصوص نشستیں بھی دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا ۔
سنی اتحاد کونسل نے اس فیصلے کو پہلے پشاور ہائی کورٹ میں چلینج کیا جہاں سے فیصلہ خلاف آنے پر اسے سپریم کورٹ میں چلینج کیا گیا۔
بعدازاں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دیے جانے کا فیصلہ معطل کر دیا۔
سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے 12 جولائی 2024 کو اپنے ایک فیصلے میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کا حق دار قرار دیا۔ اعلیٰ عدالت کے 13 رکنی لارجر بینچ نے پانچ آٹھ کے تناسب سے یہ فیصلہ دیا۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو 15 دنوں میں مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع کرانے، ارکان سے پارٹی وابستگی کا حلف نامہ دینے اور الیکشن کمیشن کو پارٹی وابستگی کی تصدیق کے لیے سات دن کی مہلت دی تھی ۔
بعدازاں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کے دوران کاغذات میں پارٹی وابستگی ظاہر کرنے والے 39 قومی اسمبلی، 29 پنجاب اسمبلی، 58 کے پی کے اسمبلی اور 6 سندھ اسمبلی کے آزاد حیثیت میں کامیاب اراکین کو پی ٹی آئی رکن ڈکلیئر کرنے کا نوٹی فکیشن بھی جاری کیا۔ تاہم دیگر اراکین اسمبلی کو تحریک انصاف کا رکن قرار دینے میں حائل قانونی رکاوٹوں پر سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔
بعدازاں الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی جو اب تک زیرِ سماعت ہے۔
ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ خواتین اور غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس عدالت میں زیرِ سماعت ہے اس لیے اس پر کسی قسم کا تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہو گا۔
سات فروری کو جاری ایک بیان میں ترجمان نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس معاملے پر آئین اور قانون کےمطابق فیصلہ کرے گا۔
'کبھی ہول سیل کے حساب سے اتنی نشستیں خالی نہیں دیکھیں'
پارلیمان کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی ایک سال تک اتنی تعداد اور ہول سیل کے حساب سے خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں خالی نہیں دیکھیں اور اس طرح کا کبھی تنازع بھی سامنے نہیں آیا ۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احمد بلال نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ طے ہو چکا تھا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں دی جائیں گی، اسی لیے یہ بہانہ بنایا گیا کہ سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کے بعد مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی درخواست پر سماعت ہو سکتی ہے۔
فورم