تبت کے جلا وطن روحانی پیشوا دلائی لاما کے ساتھ صدر براک اوباما کی حالیہ ملاقات امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کی نئی وجہ بن گئی ہے۔ چین نے پوری کوشش کی تھی کہ یہ ملاقات نہ ہونے پائے۔ واشنگٹن میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کے اعتراض کے باوجود واشنگٹن نے انسانی حقوق کے بارے میں اپنا موقف برقرار رکھا۔
چینی عہدے داروں کی نظر میں دلائی لاما علیحدگی پسند تبتی اور بھکشو کے لباس میں بھیڑیے ہیں۔ لیکن بہت سے دوسرے لوگ انہیں امن کا چیمپیئن سمجھتے ہیں۔ جمعرات کے روز، وہ وہائیٹ ہاوس میں صدر براک اوباما سے ملے اور تبت کے لوگوں کے لیے ان کی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ’’ صدر بننے سے پہلے ہی انتخاب کے دوران انھوں نے مجھے ٹیلی فون کیا تھا اور صدر بننے کے بعد بھی اور اپنے بیجنگ کےدورے میں انھوں نے تبت کے بارے میں اور دوسرے عالمی مسائل پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ اس کے لیے میں نے ان کا شکریہ ادا کیا‘‘۔
واشنگٹن میں ان کے ہوٹل کے باہر ان کے مداحوں کا ہجوم تھا۔ یہ لوگ گیت گا رہے تھے اور اوباما انتظامیہ کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ بعض لوگوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ گذشتہ اکتوبر میں مسٹر اوباما نے طے کیا تھا کہ وہ چین کے دورے سے پہلے دلائی لاما سے نہیں ملیں گے تا کہ چین ناراض نہ ہو۔
اس فیصلے سے چین میں انسانی حقوق کے لیے مسٹر اوباما کی حمایت کے بارے میں سوالات پیدا ہوئے۔ ان کے پیشرو، جارج ڈبلیو بُش کا رویہ اس سے مختلف تھا۔ انھوں نے دلائی لاما کو امریکی کانگریس کا گولڈ میڈل پیش کیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کی سوفی رچرڈسن کہتی ہیں کہ چین کی حکومت کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے امریکی حکومت کو واضح موقف اختیار کرنا چاہیئے اور انسانی حقوق کے بارے میں شروع ہی سے یکساں پالیسی پر کاربند رہنا چاہیئے۔ صدر کے اس فیصلے سے کہ وہ دلائی لاما سے اس وقت تک نہیں ملیں گے جب تک کہ اپنا چین کا دورہ مکمل نہیں کر لیتے، یقیناً یہ تاثر ملا کہ انسانی حقوق کےبارے میں ان کا رویہ نرم ہے۔
مسٹر اوباما نے اس میٹنگ کے بارے میں خود کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن وہائٹ ہاوس نے ایک فوٹو جاری کیا جس میں دونوں نوبل انعام یافتہ شخصیتوں کو ایک ساتھ دکھایا گیا ہے۔ ایک بیان میں مسٹر اوباما نے یہ بھی کہا کہ وہ تبت کی منفرد مذہبی اور ثقافتی شناخت کی حمایت کرتے ہیں۔ انھوں نے چین اور تبت کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات دور کرلیں۔
یہ میٹنگ ایسے وقت میں ہوئی ہے جب چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کی وجوہات میں چینی کرنسی کی قدر میں ردو بدل کے الزامات، امریکہ کی طرف سے تائیوان کو اسلحہ کی فروخت، اور چین میں انٹرنیٹ پر پابندیاں شامل ہیں۔
جمعے کے روز بیجنگ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس میٹنگ سے امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ چین نے امریکی سفیر کو میٹنگ کے لیے طلب کیا۔
کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسررابی بارنیٹ کہتے ہیں کہ یہ میٹنگ انتہائی اہم تھی کیوں کہ 2007 ء میں دلائی لاما اور صدر جارج ڈبلو بُش کی ملاقات کے بعد چین نے اپنی ان کوششوں میں زبردست اضافہ کر دیا ہے کہ دلائی لاما دوسروں ملکوں کا سفر نہ کرنے پائیں اور دوسرے عالمی لیڈروں سے ان کی ملاقات نہ ہو۔ان کے مطابق ’’امریکہ نے اب صاف صاف بتا دیا ہے کہ اس قسم کی دھمکی آمیز سفارتکاری جو چین نے دلائی لامہ کے سلسلے میں اختیار کی ہے، اس سے اب کام نہیں چلے گا‘‘۔
اگرچہ چین کی طرف سے جوابی کارروائی کے بارے میں کچھ تشویش ہے لیکن ہیومن رائٹس واچ کی سوفی رچرڈسن کہتی ہیں کہ انھیں شبہ ہے کہ چین کوئی سخت موقف اختیار کرے گا۔ اگر چینی حکومت کسی زیادہ سخت رد عمل کا اظہار کرتی ہے تو اس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ دلائی لاما تبت اور انسانی حقوق کے بارے میں بحث طول پکڑ جائے گی۔ یہ بات چین کے مفاد میں نہیں ہوگی۔
چین کے امور کے ایک اور ماہر، ہانگ کانگ یونیورسٹی آف ٹکنالوجی کے بیری ساٹ مین کا خیال ہے کہ یہ تشویش صحیح نہیں ہے کہ چینی صدرہُو جن تاؤ کا واشنگٹن کا ممکنہ دورہ منسوخ کردیا جائےگا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ اپریل میں ابھی کچھ مہینے باقی ہیں اورچند مہینوں میں حالات معمول پر آجائیں گے۔
بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عالمی مالیاتی بحران، تجارت اور آب و ہوا کی تبدیلی جیسے اہم مسائل کی موجودگی میں بیجنگ اور واشنگٹن اپنے تعلقات میں پیش رفت کی کوئی راہ تلاش کر لیں گے۔