واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ امریکی ناوابستگی ’آپشن‘ نہیں ہے۔ تاہم، ہر مسئلے کا فوجی حل نہیں۔
مسٹر اوباما نے یہ بات بدھ کے روز امریکی ملٹری اکیڈمی سے خطاب میں کہی، جس میں اُنھوں نے اپنے عہدے کی میعاد کے آخری برسوں کے دوران اختیار کیا جانے والا خارجہ پالیسی کا نصب العین پیش کیا۔
صدر اوباما نے کہا کہ دہشت گردی امریکی سلامتی کے لیے ایک براہِ راست خطرہ ہے؛ اور اُنھوں نے اُن ملکوں کے ساتھ ساجھے داری پر زور دیا جہاں دہشت گرد نیٹ ورکس کے ٹھکانے ہیں۔
اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ کو اپنے عوام اور اپنے ملک کی حفاظت کے لیے کبھی کسی سے اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں۔ تاہم، جب عالمی تشویش کے باعث معاملات کو خطرہ لاحق ہو، جن سے امریکہ کو کوئی براہ راست خطرہ درپیش نہیں، پھر ایک حد آجاتی ہے جب فوجی کارروائی سے بچنا ممکن نہیں۔
بقول اُن کے، ایسے حالات میں، ہمیں اکیلا میدان میں نہیں اترنا چاہیئے۔ بجائے اِس کے، مشترکہ کارروائی کرنے کے لیے ہمیں اپنے اتحادیوں اور ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے طور طریقوں کو وسعت دیتے ہوئے سفارت کاری اور ترقی، تعزیرات اور الگ تھلگ کرنے، بین الاقوامی قانون کو ملوث کرنے، اور اگر کوئی اور چارہ کارگر نہ رہے، تو مؤثر اور کثیر ملکی فوجی اقدام کرنا چاہیئے۔ ایسے حالات میں، ہمیں دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیئے، کیونکہ ایسی صورتِ حال میں مشترکہ کارروائی کے کامیاب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
مسٹر اوباما نے پانچ ارب ڈالر کے فند مختص کرنے کی تجویز پیش کی، تاکہ دہشت گردی سے لڑنے کے ضمن میں ملکوں کی مدد کی جا سکے اور امریکی محکمہٴدفاع کی انٹیلی جنس، نگرانی، نظرداری اور خصوصی کارروائیوں اور دیگر اقدام کے لیے رقوم کی فراہمی کو بڑھایا جا سکے۔
صدر نے کہا کہ باقی دنیا کے مقابلے میں امریکہ اب تک شاید ہی کبھی اتنا طاقت ور رہا ہو۔
اُنھوں نے کہا کہ نیٹو سے بین الاقوامی مالیاتی فند (آئی ایم ایف) کے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے بارہا یہ ثابت ہو چکا ہے کہ امریکہ ہی ’ایک ناگزیر قوم ہے‘۔
اُن کا یہ خطاب ایسے وقت سامنے آیا ہے جب مسٹر اوباما کو خارجہ پالیسی کے ماہرین کی طرف سے شام کی خانہ جنگی سے متعلق معاملات سے لے کر یوکرین کے سیاسی بحران کے سلسلے میں اختیار کیے جانے والے مؤقف پر تنقید درپیش ہے۔
صدر نے اس بات کا عہد کیا کہ شام کے ہمسایوں اردن، لبنان، ترکی اور عراق کی امداد کی کوششیں تیز کی جائیں گی، اور ساتھ ہی ساتھ، شام کی اپوزیشن کی مدد میں اضافہ لانے کے لیے کانگریس کے ساتھ مل کرکام کیا جائے گا، جو (اپوزیشن) دہشت گردوں اور ظالم آمر کا بہترین متبادل ہے۔
یوکرین کے بارے میں، مسٹر اوباما نے کہا کہ دنیا کی رائے عامہ تبدیل کرنے کے سلسلے میں مؤثر امریکی استعداد کے باعث ہی یہ ممکن ہوا کہ فوری طور پر، روس دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا۔
مسٹر اوباما نے یہ بات بدھ کے روز امریکی ملٹری اکیڈمی سے خطاب میں کہی، جس میں اُنھوں نے اپنے عہدے کی میعاد کے آخری برسوں کے دوران اختیار کیا جانے والا خارجہ پالیسی کا نصب العین پیش کیا۔
صدر اوباما نے کہا کہ دہشت گردی امریکی سلامتی کے لیے ایک براہِ راست خطرہ ہے؛ اور اُنھوں نے اُن ملکوں کے ساتھ ساجھے داری پر زور دیا جہاں دہشت گرد نیٹ ورکس کے ٹھکانے ہیں۔
اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ کو اپنے عوام اور اپنے ملک کی حفاظت کے لیے کبھی کسی سے اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں۔ تاہم، جب عالمی تشویش کے باعث معاملات کو خطرہ لاحق ہو، جن سے امریکہ کو کوئی براہ راست خطرہ درپیش نہیں، پھر ایک حد آجاتی ہے جب فوجی کارروائی سے بچنا ممکن نہیں۔
بقول اُن کے، ایسے حالات میں، ہمیں اکیلا میدان میں نہیں اترنا چاہیئے۔ بجائے اِس کے، مشترکہ کارروائی کرنے کے لیے ہمیں اپنے اتحادیوں اور ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے طور طریقوں کو وسعت دیتے ہوئے سفارت کاری اور ترقی، تعزیرات اور الگ تھلگ کرنے، بین الاقوامی قانون کو ملوث کرنے، اور اگر کوئی اور چارہ کارگر نہ رہے، تو مؤثر اور کثیر ملکی فوجی اقدام کرنا چاہیئے۔ ایسے حالات میں، ہمیں دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیئے، کیونکہ ایسی صورتِ حال میں مشترکہ کارروائی کے کامیاب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
مسٹر اوباما نے پانچ ارب ڈالر کے فند مختص کرنے کی تجویز پیش کی، تاکہ دہشت گردی سے لڑنے کے ضمن میں ملکوں کی مدد کی جا سکے اور امریکی محکمہٴدفاع کی انٹیلی جنس، نگرانی، نظرداری اور خصوصی کارروائیوں اور دیگر اقدام کے لیے رقوم کی فراہمی کو بڑھایا جا سکے۔
صدر نے کہا کہ باقی دنیا کے مقابلے میں امریکہ اب تک شاید ہی کبھی اتنا طاقت ور رہا ہو۔
اُنھوں نے کہا کہ نیٹو سے بین الاقوامی مالیاتی فند (آئی ایم ایف) کے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے بارہا یہ ثابت ہو چکا ہے کہ امریکہ ہی ’ایک ناگزیر قوم ہے‘۔
اُن کا یہ خطاب ایسے وقت سامنے آیا ہے جب مسٹر اوباما کو خارجہ پالیسی کے ماہرین کی طرف سے شام کی خانہ جنگی سے متعلق معاملات سے لے کر یوکرین کے سیاسی بحران کے سلسلے میں اختیار کیے جانے والے مؤقف پر تنقید درپیش ہے۔
صدر نے اس بات کا عہد کیا کہ شام کے ہمسایوں اردن، لبنان، ترکی اور عراق کی امداد کی کوششیں تیز کی جائیں گی، اور ساتھ ہی ساتھ، شام کی اپوزیشن کی مدد میں اضافہ لانے کے لیے کانگریس کے ساتھ مل کرکام کیا جائے گا، جو (اپوزیشن) دہشت گردوں اور ظالم آمر کا بہترین متبادل ہے۔
یوکرین کے بارے میں، مسٹر اوباما نے کہا کہ دنیا کی رائے عامہ تبدیل کرنے کے سلسلے میں مؤثر امریکی استعداد کے باعث ہی یہ ممکن ہوا کہ فوری طور پر، روس دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا۔