وزیر اعظم نواز شریف منگل کی شام امریکہ کے سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے۔
اینڈریوز ایئر بیس پر آمد کے موقع پر، پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن؛ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب، ملیحہ لودھی کے علاوہ پاکستانی و محکمہٴخارجہ کے اہل کاروں نے اُن کا استقبال کیا۔
ایک چاک و چوبند دستے نے انھیں سلامی پیش کی۔
وزیر اعظم کے وفد میں خاتون اول بیگم نواز شریف اور بیٹی مریم نواز کے علاوہ مشیر طارق فاطمی، وزراٴ چودھری نثار علی خان اور اسحاق ڈار شامل ہیں۔
ایئرپورٹ سے پاکستانی مہمان ’بلیئر ہاؤس‘ کے سرکاری مہمان خانے پہنچے۔
جمعرات، 22 اکتوبر کو وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم نواز شریف اور صدر براک اوباما کی ملاقات ہوگی۔
وہ نائب صدر جو بائیڈن سے بھی ملاقات کریں گے۔
اس کے علاوہ، وزیر اعظم کی امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور دفاع، توانائی اور خزانے کے وزرا سے ملاقات ہوگی۔ وہ سینیٹ اور ایوان کی امور خارجہ کی کمیٹیوں کے سربراہان سے بھی ملاقات کریں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف ’امریکہ پاکستان بزنس کونسل‘ کے ارکان سے بھی ملیں گے، جس دوران پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے پر بات ہوگی، جس میں بجلی کے منصونوں میں سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔
پروگرام کے مطابق، وزیر اعظم ’امریکن انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ سے خطاب کریں گے۔
وائٹ ہاؤس ملاقات کے بارے میں پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں پریس سکریٹری، جوش ارنیسٹ نے کہا تھا کہ ’یہ دورہ دیرپہ نوعیت کے امریکہ پاکستان تعلقات کا غماز ہے‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ ’اِس دورے سے باہمی تشویش کے معاملات کےبارے میں تعاون کو مضبوط کرنے کا موقع فراہم ہوگا، جِن میں معاشی افزائش، تجارت اور سرمایہ کاری، شفاف توانائی، عالمی صحت، موسمیاتی تبدیلی، جوہری سکیورٹی، انسداد دہشت گردی اور علاقائی استحکام (کے معاملات) شامل ہیں۔‘
ترجمان نے کہا کہ ’صدر، وزیر اعظم نواز شریف سے بات چیت کے منتظر ہیں، جِس میں وہ طریقہ کار تلاش کرنا شامل ہے جس سے ہمارے مشترکہ مفادات فروغ پائیں اور مستحکم و محفوظ ہوں اور پاکستان خوش حال ہو‘۔