رسائی کے لنکس

پاکستان کے جوہری اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں: نواز شریف


امریکہ روانگی سے قبل نواز شریف نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہے اور اس کے ایٹمی اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں جن کے تحفظ کے لیے ’فول پروف‘ انتظامات موجود ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے پیر کو امریکہ کے سرکاری دورے پر روانگی سے قبل ایک بیان میں کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہے اور اس کے ایٹمی اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں جن کے تحفظ کے لیے ’فول پروف‘ انتظامات موجود ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جوہری طاقت کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف دفاع کے لیے ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام ممالک کی جغرافیائی خود مختاری اور سالمیت کو تسلیم کرتا ہے اور باہمی احترام و برابری کی بنیاد پر دو طرفہ اور کثیر الجہت تعلقات چاہتا ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی امریکہ روانگی سے قبل ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں سامنے آئیں کہ اس دورے کے دوران امریکہ کے صدر براک اوباما پاکستان کے جوہری اثاثوں کے تحفظ پر زور دیں گے۔

جب کہ بعض خبروں میں پہلے یہ کہا گیا کہ اس دورے کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان سویلین جوہری معاہدے سے متعلق بات چیت ہو گی لیکن بعد میں وائٹ ہاؤس کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ فی الحال ایسے کسی معاہدے کی توقع نہیں۔

انھیں خبروں اور قیاس آرائیوں پر پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے ایک بیان میں کہا کہ وزیراعظم کے دورے سے قبل ایسی خبریں گمراہ کن ہیں۔

ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ اس طرح کی کسی قسم کی ’’ڈیل‘‘ پر کوئی بات نہیں ہو رہی ہے اور نا ہی امریکہ نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کے بارے میں کوئی مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب اور سفارت مسعود خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر سویلین جوہری معاہدے سے متعلق بات ہوئی بھی تو بہت ابتدائی نوعیت کی ہو گی۔

’’میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس سلسلے میں وزیر اعظم کے دورے کے دوران کوئی بات چیت ہوئی تو وہ ابتدائی بات چیت ہو گی۔۔ اس میں بہت سی تفصیلات طے کرنی ہوتی ہیں آپ کو یاد ہو گا کہ بھارت کے ساتھ اس سلسلے میں جب مذاکرات شروع ہوئے تھے تو کم از کم پانچ چھ سال لگے تھے کیونکہ امریکیوں کو بھی اپنی طرف نا صرف انتظامیہ بلکہ کانگریس اور دوسرے حلقوں کو سنبھالنا ہوتا ہے، یہ مشکل مکالمہ ہو گا۔‘‘

فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیراعظم 20 اکتوبر سے امریکہ کا دورہ شروع کریں گے اور 22 اکتوبر کو اُن کی صدر براک اوباما سے ملاقات طے ہے۔

اپنے بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات فروغ پا رہے ہیں اور اُن کا ملک دوطرفہ ’اسٹریٹیجک مذاکرات‘ کو مزید کثیر الجہت بنانے کا خواہاں ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بطور ایک خودمختار جمہوری ملک کے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی ملک میں جاری آپریشن ’ضرب عضب‘ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان ملک کے ہر کونے سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں پرعزم ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ صرف پاکستان میں امن و خوشحالی کے لیے ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا اور اس خطے سے باہر کی دنیا کو امن اور ترقی کا مرکز بنانے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔

پاکستان کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس وقت اگر علاقائی صورت حال کو دیکھا جائے تو پاکستان کا کردار خاصا اہم ہے اس لیے اُن کے بقول امریکہ کا دورہ اہمیت کا حامل ہے۔

’’وزیر اعظم سیاسی طور پر ایک مضبوط موقف کے ساتھ جا رہے ہیں جو زمینی حقائق ہیں وہ پاکستان کے حق میں ہیں۔۔۔ امریکہ بھی یہ چاہتا ہے افغانستان میں جو بھی کام ہو امن کا، گفتگو کا وہ پاکستان اور چین سے مل کر ہو تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری مجموعی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔‘‘

واضح رہے کہ موجودہ دور اقتدار میں وزیراعظم نواز شریف کا یہ امریکہ کا دوسرا سرکاری دو طرفہ دورہ ہے، اس سے قبل اُنھوں نے اکتوبر 2013ء میں پہلا دورہ کیا تھا۔

سرکاری بیان میں بتایا گیا کہ اس دورے میں وزیراعظم نواز شریف صدر براک اوباما، نائب صدر جو بائیڈن اور اوباما انتظامیہ کی کابینہ کے اراکین سے باہمی دلچسپی کے دوطرفہ اُمور پر بات چیت کریں گے۔

وزیراعظم نواز شریف اراکین کانگریس سے ملاقاتوں کے علاوہ واشنگٹن میں پاکستان اور امریکہ بزنس کونسل کی ایک تقریب میں بھی شرکت کریں گے جب کہ امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس سے بھی خطاب کریں گے۔

XS
SM
MD
LG