رسائی کے لنکس

وزیرِاعظم امریکہ میں پاکستانی موقف موثر انداز میں پیش کریں، تجزیہ کار


وزیراعظم نواز شریف
وزیراعظم نواز شریف

پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کا ملک امریکہ سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایسے اقدام نہیں کرے گا جس سے خطے میں اسٹریٹجک عدم توازن میں مزید اضافہ ہو۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف 20 اکتوبر سے امریکہ کا اپنا سرکاری دورہ شروع کر رہے ہیں جس میں صدر براک اوباما کے علاوہ وہ دیگر اعلیٰ امریکی عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

مئی 2013ء کے عام انتخابات میں تیسری مدت کے لیے پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ نواز شریف کا امریکہ کا یہ دوسرا سرکاری دورہ ہے۔

اس دورے کو جہاں پاک امریکہ تعلقات اور دوطرفہ تعاون میں پیش رفت کے لیے خاصا اہم تصور کیا جا رہا ہے وہیں اسے مختلف علاقائی اور عالمی امور سے متعلق پاکستان کے نقطہ نظر کو امریکی قیادت کے سامنے پیش کرنے کا موقع بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن گزشتہ دو برسوں کے دوران ان میں خاصی بہتری دیکھی گئی ہے اور کئی اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے بھی ہو چکے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف کی حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جہاں اس دورے میں دوطرفہ تعلقات اور خصوصاً اقتصادی تعاون میں وسعت پر تبادلہ خیال کیا جائے گا وہیں خطے کی صورتحال میں امریکہ کے کردار پر بھی بات ہوگی۔

گزشتہ برس افغانستان سے امریکہ کی زیرقیادت اتحادی افواج کے لڑاکا مشن کے اختتام اور اس کے بعد جنگ سے تباہ حال ملک میں طالبان کی شدت پسندانہ کارروائیوں میں اضافے نے خطے کے امن پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔

امریکی صدر بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مہمان وزیراعظم سے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کریں گے۔

ایک اور معاملہ جو پاکستان وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے قبل ذرائع ابلاغ میں توجہ حاصل کیے ہوئے ہیں وہ ہے امریکہ کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات خصوصاً دو طرفہ جوہری معاہدہ۔

پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کا ملک امریکہ سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایسے اقدام نہیں کرے گا جس سے خطے میں اسٹریٹجک عدم توازن میں مزید اضافہ ہو۔

پاکستان بھی امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کا خواہاں ہے لیکن امریکہ ایسے کسی معاہدے کے فی الوقت امکان کو رد کر چکا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہے اور اس کے جوہری اثاثوں کے حفاظتی انتظامات و اقدام کا تمام بین الاقوامی ادارے بھی اعتراف کر چکے ہیں لہذا امریکہ کو چاہیئے کہ وہ خطے میں جوہری معاہدے کرتے ہوئے اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھے۔

"ایک ایسا مسئلہ جس کے ہماری سکیورٹی ہماری حاکمیت پر منفی اثرات ہیں ہم یقیناً (امریکہ سے) سوال اٹھائیں گے کہ آپ ہر وہ قدم جو لیتے ہیں اس جوہری عدم پھیلاؤ کے شعبے میں وہ طریقہ کار کی بنیاد پر ہو نہ کہ ملکی کی بنیاد پر۔"

تجزیہ کار بھی اس دورے کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ملکوں کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو مزید بہتر کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔

سینیئر تجزیہ کار طلعت وزارت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔

"پہلے دوروں میں پاکستان کا نقطہ نظر بلکل نظر انداز کیا جاتا تھا ہماری حکومت اتنے مناسب ذرائع سے نقطہ نظر پیش نہیں کرتی تھی میں امید کرتی ہوں کہ اس بار تھوڑا زور کے ساتھ ہمارا نقطہ نظر آنا چاہیئے اس ڈائیلاگ میں اور میرا خیال ہے کہ حکومت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔"

ان کا بھی کہنا تھا کہ پاکستانی وزیراعظم کو تمام امور سے متعلق اپنے نقطہ نظر کو موثر انداز میں امریکی قیادت کے سامنے پیش کرنا چاہیئے تاکہ خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے امریکی جیسی عالمی طاقت کے اثر و رسوخ کو معاون بنایا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG