رسائی کے لنکس

بھارت: مسلم عمائدین امت شاہ سے ملاقات کے بعد نفرت اور تشدد کے خاتمے کے لیے پر امید


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں مسلمانوں کی ایک تنظیم جمعیت علماء ہند کے صدر اور سابق رکن پارلیمان مولانا محمود مدنی کی قیادت میں ایک وفد نے بدھ کو وزیرِِ داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد مسلم عمائدین ملک میں نفرت اور تشدد کے خاتمے کے لیے پرامید ہیں۔

سولہ رکنی وفد نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی، گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کی ہلاکت، حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بعض رہنماؤں کی جانب سے مسلم مخالف بیانات، مدارس و مساجد پر حملے، مشترکہ سول کوڈ، بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورتِ حال، آسام سے مسلمانوں کی مبینہ جبری بے دخلی سمیت دیگر مسائل پر گفتگو کی۔

وفد نے گزشتہ ہفتے ہندوؤں کے تہوار 'رام نومی' کے موقع پرمختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا اور وزیرِ داخلہ سے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔

وفد کے ایک رکن پروفیسر اختر الواسع کہتے ہیں ملک کے موجودہ ماحول میں خاموش رہنا جرم ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت سے مل کر اپنے مسائل و مصائب اس کے سامنے رکھے جائیں۔

پروفیسر اختر الواسع مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور اسلامیات کے پروفیسر ہیں۔ وزیرِ داخلہ سے ہونے والی ملاقات پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فوری طور پر یہ سوچنا کہ ایک ہی ملاقات میں تمام مسائل حل ہو جائیں گے تو یہ مناسب نہیں۔ لیکن اچھے نتائج کی امید رکھنی چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ وفد نے امت شاہ کے سامنے جبریہ تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار معروف عالم دین مولانا کلیم صدیقی کا معاملہ بھی اٹھایا اور اس بات چیت کا اچھا نتیجہ سامنے آیا ہے۔

واضح رہے کہ اترپردیش کے اینٹی ٹیرارسٹ اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے جبری تبدیلیٔ مذہب کے الزام میں مولانا کلیم صدیقی کو ستمبر 2021 میں گرفتار کیا تھا۔ بدھ کو ہی الہٰ آباد ہائی کورٹ نے ان کی درخواست ضمانت منظور کی ہے۔

پروفیسر واسع کےبقول،مسلم عمائدین پر مشتمل وفد نے وزیرِ داخلہ کو مسلمانوں پر ہونے والے حملوں سے باخبر کیا جس پر امت شاہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ مسلمانوں سے ہونے والی زیادتی کے مقامات کی تحریری شکایت دیں تو حکومت کارروائی کرے گی۔

وفد میں شامل ایک اور رکن مسلمانوں کے ایک متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن کمال فاروقی کہتے ہیں حکومت کے کسی اعلیٰ عہدے دار سے مسلمانوں کی یہ پہلی ملاقات تھی اور امید ہے کہ اس ملاقات کے بعد حالات بہتر ہوں گے۔

مسلمانوں کے بعض حلقوں کی جانب سے اس ملاقات کا خیرمقدم کیا گیا ہے جب کہ بعض نے اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

سینئر تجزیہ کار ایم ودود ساجد کہتے ہیں موجودہ حالات حکومت سے محاذ آرائی کے نہیں۔ حالات کا تقاضہ تھا کہ حکومت سے ملاقات کی جائے۔ امت شاہ سے ہونے والی ملاقات کے بعد مسلمانوں کو کم از کم یہ اطمینان رہے گا کہ ان کے قائدین نے حکومت کے سامنے اپنےمسائل رکھے ہیں۔

ان کے بقول، "مسلم وفد کی وزیرِ داخلہ سے ملاقات بڑی خاموشی سے ہوئی اور وفد میں مسلمانوں کے تمام طبقات کی نمائندگی نہیں تھی۔"

 مذہبی اقلیتوں کے خلاف عدم براشت بڑھ رہی ہے، ہیومن رائٹس کمیشن
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:45 0:00

ودود ساجد نے وفد کے بعض اراکین کے اس بیان پر اعتراض کیا کہ "امت شاہ کے بارے میں جیسا سنا تھا وہ اس سے مختلف نکلے۔" ان کے خیال میں مسلمان یہ سننا چاہتے ہیں کہ امت شاہ نے کیا کہا۔ وہ یہ نہیں سننا چاہتے کہ آپ کو امت شاہ کیسے لگے۔

انہوں نے ملاقات کے وقت پر بھی اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے بہت سخت بیانات دے کر مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد کی مذمت کی ہےاور اس کے اگلے ہی روز مسلمانوں کا وفد جا کر امت شاہ سے ملتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ حالیہ برسو ں میں مسلمانوں پر ہونے والے حملوں اور تشدد کے واقعات کے خلاف دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے رام نومی پر مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور بہار شریف کے قدیم مدرسے کو نذر آتش کرنے کے خلاف حال ہی میں ایک بیان جاری کیا تھا۔ او آئی سی نے بھارت کی موجودہ صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نریندر مودی حکومت سے مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

بھارت کی وزارت خارجہ نے او آئی سی کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے فرقہ وارانہ اور بھارت مخالف ذہنیت کا عکاس قرار دیا تھا۔

پاکستان نے بھی رام نومی کے جلوس کے موقع پر مسلمانوں کے خلاف تشدد پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی ہندو اکثریت پسندی کی سیاست اور مسلمانوں کے خلاف بیانات کا نتیجہ ہے۔ بھارت نے تاحال پاکستان کے بیان پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے رام نومی کے جلوس میں شامل ہجوم نے بہار شریف کے 110 سال پرانے مدرسے کو نذر آتش کر دیا تھا جس کے نتیجے میں 4500 کتب پر مشتمل لائبریری جل کر خاک ہو گئی تھی۔

امیت شاہ سے ملاقات کے بعد جمعیت علماء نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مولانا محمود مدنی نے وزیرِ داخلہ سے گفتگو کے دوران کہا کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف کھلی نفرت انگیزی کی جا رہی ہے جس سے نہ صرف فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھ رہی ہے بلکہ اس سے ملکی معیشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔

جمعیت علماء کے ترجمان نیاز احمد فاروقی ایڈووکیٹ کے مطابق امت شاہ نے وفد کی تشویش اور شکایات توجہ سے سنیں اور انہیں شکایات پر کارروائی کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔

جمعیت کے ذرائع کے مطابق جب وزیرِ داخلہ کے سامنے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورتِ حال اور آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی پر گفتگو کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو مذہبی عینک سے نہ دیکھیں کیوں کہ یہ مذہبی معاملہ نہیں۔ البتہ اگر اس دفعہ کے خاتمے سے مسلمانوں کو پریشانی لاحق ہے تو حکومت اس معاملے کو دیکھے گی۔

واضح رہے کہ جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کی سربراہی میں وزیرِ داخلہ سے ملاقات سے قبل دہلی کے پانچ سرکردہ مسلمانوں کے وفد نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی۔ اس وفد نے بھی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف منافرانہ ماحول پر گفتگو کی تھی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG