رسائی کے لنکس

بھارت: درسی کتاب سے مغل دور کی تاریخ حذف کرنے پر تنازع


بھارت میں بارہویں جماعت میں پڑھائی جانے والی تاریخ کی کتاب سے مغل دور حکومت کی تاریخ کو حذف کر نے کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

حکومتی ادارے ’نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ‘ (این سی ای آر ٹی) کی تیار کردہ کتابیں ملک کے ان ہزاروں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں جہاں سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) کے تحت امتحانات ہوتے ہیں۔

اترپردیش کے سرکاری اسکولوں میں اب این سی ای آر ٹی کا نظر ثانی شدہ نصاب پڑھایا جائے گا جس میں مغلیہ دور کی تاریخ نہیں ہو گی۔

این سی ای آر ٹی نے تاریخ کی کتاب ’تھیمز آف انڈین ہسٹری حصہ دوم‘ سے کنگز اینڈ کرونیکلز اور مغل کورٹس (سولہویں اور سترہویں صدی) نامی باب ختم کر دیا ہے۔ اترپردیش کے محکمہ ثانوی تعلیم کے ایک عہدے دار کے مطابق اگلے تعلیمی سیشن سے نظر ثانی شدہ کتاب پڑھائی جائے گی۔

اب تک بارہویں کے طلبہ کو اکبر نامہ، بادشاہ نامہ، مغل حکمراں اور ان کی سلطنت، قلمی مخطوطات کی ترتیب، مثالی ریاستیں، دار الحکومت اور عدالتیں، تحائف، شاہی خاندان، شاہی بیوروکریسی اور مغل اشرافیہ جیسی چیزیں پڑھائی جاتی تھیں۔


این سی ای آر ٹی نے بارہویں کی سائنس کی کتاب سے گجرات فسادات کے صفحات نکال دیے ہیں۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی گجرات فسادات سے متعلق رپورٹ اور اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی وزیر اعلیٰ نریند رمودی کو ’راج دھرم‘ یعنی حکومتی ذمے داری نبھانے کی تلقین کو بھی کتاب سے نکال دیا گیا ہے۔

گیارہویں اور بارہویں کی کتاب سے جمہوریت اور تنوع، معروف عوامی جد و جہد اور تحریکیں، سینٹرل اسلامک لینڈز اور تہذیبوں کا ٹکراؤ جیسے مضامین بھی حذف کر دیے گئے ہیں۔

بارہویں کی پولیٹیکل سائنس کی کتاب میں 15 برس سے پڑھائے جانے والے یہ فقرے بھی نکال دیے گئے ہیں کہ ’مہاتما گاندھی کو وہ لوگ ناپسند کرتے تھے جو بھارت کو ہندو ملک بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی ہندو مسلم اتحاد کی پالیسی کی وجہ سے ان کا قتل کیا گیا۔ ان کے قتل کے بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر پابندی لگا دی گئی تھی‘۔

اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق این سی ای آر ٹی کے حذف شدہ مواد کی فہرست میں مذکورہ فقروں کو نکالنے کا ذکر نہیں ہے لیکن جو نئی کتاب چھپ کر آئی ہے اس میں یہ فقرے شامل نہیں ہیں۔

اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے گزشتہ سال بھی عہد مغلیہ کی تاریخ کے کچھ حصے نصاب سے حذف کیے تھے۔ اکھلیش یادو کی سابقہ حکومت نے آگرہ میں ایک ’مغل میوزیم‘ تعمیر کرایا تھا، موجودہ حکومت نے اس کا نام بدل کر چھترپتی شیوا جی مہاراج میوزیم کر دیا ہے۔

نصاب میں تبدیلی کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے اور اسے دائیں بازو کی سیاست کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ متعدد تاریخ دانوں،سماجی کارکنوں اور سیاسی شخصیات نے حکومت کے اس قدم کی مذمت کی ہے۔

بیوی کو تاج محل کا تحفہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:18 0:00

'دائیں بازو کی جماعتیں تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کر رہی ہیں'

مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے شعبہ تاریخ میں استاد پروفیسر محمد سجاد کا کہنا ہے کہ حکومت نے نصاب میں تبدیلی کی وجہ طلبہ پر بہت زیادہ بوجھ بتایا ہے۔ حالاں کہ یہ ایک بہانہ ہے۔ یہ ایک سیاسی قدم ہے۔

ان کے بقول سیاسی مقصد کے تحت بھارتی تاریخ کے ایک اہم عہد کو ختم کر دینے کا قدم اٹھایا گیا ہے۔ دائیں بازو کی تمام جماعتیں اپنے انداز میں تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو لگتا ہے کہ مغلیہ عہد میں سول انجینئرنگ، آرٹ، ادب، فلسفہ، فن تعمیر، معیشت، تجارت اور انتظامیہ وغیرہ کے شعبوں میں جو ترقی ہوئی تھی اسے پڑھانے سے ہندوؤں کی کمتری کا اظہا ر ہوگا۔

تاج محل مغل بادشاہ شاہجہان نے سترہویں صدی میں تعمیرکرایا تھا۔
تاج محل مغل بادشاہ شاہجہان نے سترہویں صدی میں تعمیرکرایا تھا۔


ان کے مطابق پورے مغل عہد کو ایک صفحہ میں بھی پڑھایا جا سکتا ہے اور دو صفحے میں بھی۔ لیکن اس پورے عہد کو کیسے غائب کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کا یہ الزام ہے کہ مغل دور حکومت میں ہندوؤں پر ظلم ہوا تھا تو ثبوتوں کے ساتھ وہ بھی پڑھائیں۔ اس عہد کی خوبیاں اور خامیاں سب پڑھائی جانی چاہئیں۔ جب تک طالب علم پڑھیں گے نہیں انہیں ماضی کی اچھائیوں اور برائیوں کا پتا کیسے چلے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم تاج محل پر فخر بھی کرتے ہیں اور اس کے معمار کی تاریخ بھی مٹانا چاہ رہے ہیں۔ اگر ان کی تاریخ نہیں پڑھائی جائے گی تو مغلیہ دور کی تعمیرات کن کے نام سے منسوب کی جائیں گی۔

ایل ایس کالج مظفر پور میں تاریخ کے استاد پروفیسر اشوک انشومان اس فیصلے کو نامعقول قرار دیتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ یہ فیصلہ بلاتاخیر واپس لیا جائے۔ ان کے بقول مغلیہ عہد صرف سیاسی حکمرانی سے عبارت نہیں ہے بلکہ وہ ایک ثقافتی ورثہ بھی ہے۔

مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے پروفیسر ایمریٹس اور قرون وسطیٰ کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے تاریخ داں پروفیسر عرفان حبیب نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عہدِ مغلیہ کی تاریخ سے متعلق ابواب حذف کرنے سے 200 برس کی تاریخ کے بارے میں لوگوں کا علم صفر ہو جائے گا۔


ان کے بقول اگر مغلوں کی تاریخ نہیں ہو گی تو تاج محل بھی نہیں ہوگا۔ بھارت میں تاج محل سے بڑی کوئی یادگار نہیں۔ باہر سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔ ہم انہیں کیا بتائیں گے کہ اسے کس نے تعمیر کیا تھا۔ ہم کہہ دیں گے کہ ہم نہیں جانتے یہ کیسے بنا اور کہاں سے بنا؟

سابق مرکزی وزیر اور رکن پارلیمان کپل سبل نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے نئے بھارت کی تاریخ 2014 کے بعد سے لکھی جانی چاہیے۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) کے رہنما سیتا رام یچوری نے اس فیصلے کو فرقہ وارانہ قرار دیا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ تاریخ کو فرقہ وارانہ بنیاد پر مرتب کرنے میں شدت آتی جا رہی ہے۔

ادھر این سی ای آر ٹی کے ڈائرکٹر دنیش پرساد سکلانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس فیصلے کا دفاع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پیشہ ورانہ کارروائی ہے اور اس کا مقصد کرونا کی وبا سے متاثر طلبہ کی مدد کرنا ہے۔ اس کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے۔ انہوں نے اس الزام کی سختی سے تردید کی کہ نصاب میں تبدیلی ایک مخصوص نظریے کو سوٹ کرتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس قدم کا مقصد مغلیہ عہد کی معلومات کو نصاب سے ہٹانا نہیں ہے بلکہ تاریخ کی کتاب میں تبدیلی طلبہ کے بوجھ کو کم کرنے کے مقصد سے کی گئی ہے۔ کرونا وبا سے متاثر طلبہ کے بارے میں یہ بات محسوس کی گئی تھی کہ کتاب سے مواد کم کر دیا جانا چاہیے۔

اترپردیش کے نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک کا کہنا ہے کہ ہماری قدیم تہذب، روایات اور ثقافت ہمارا ورثہ ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ موجودہ نسل ہماری قدیم عظمت کے بارے میں صحیح علم حاصل کرے۔

اُنہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کے بعد عوام کو قدیم بھارتی ثقافت اور ورثے کے بارے میں تاریکی میں رکھا گیا۔ ہم تاریخی غلطیوں کو درست کرنا چاہتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG