ہزارہ برادرای کے ایک سرگرم کارکن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ تقریباً 20 برسوں کے دوران ہزارہ برادری کے تین ہزار سے زائد افراد ہدف بنا کر قتل کیے گئے اور دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بنے اور ان میں سے زیادہ تر واقعات صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں رونما ہوئے۔
ہزارہ برادری کی سرگرم کارکن اور وکیل، جلیلہ حیدر نے سینیٹ کے انسانی حقوق سے متعلق ایک کمیٹی کو بتایا کہ یہ اعداد و شمار سرکاری طور پر جمع کیے گئے ہیں۔
جلیلہ نے ہزارہ برداری کو درپیش خطرات اور مشکلات سے کمیٹی کے ارکان کو آگاہ کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ ہزارہ برداری کو درپیش سلامتی و تحفظ کے خطرات کی پیش نظر ہزارہ خواتین اور بچوں کو درپیش صورت حال کی سنگینی کے معاملے کو دیکھیں۔
جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جلیلہ نے کہا کہ کوئٹہ میں ان کی برداری کے تحفظ کے لیے کیے گئےانتہائی سخت اقدامات کی وجہ سے ان کی برداری کے لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہوگئی ہے۔
بقول اُن کے، "سیکورٹی کا متبادل طریقہٴ کار وضع کیا جائے۔ ہم قدرتی ماحول میں رہنا چاہتے ہیں۔ ہم ملک کے ہر گوشے گوشے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے بچے خوف کا شکار ہیں اور ہماری خواتین کو معاشی مسائل کا سامنا ہے نوجوان خواتین کو کئی طرح کے سماجی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ 2001 کے بعد سے اب تک تقریباً 90 ہزار ہزارہ خاندان انڈونیشا، ترکی اور دیگر ملکوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور حکومت کو ان کی واپسی کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔
اُنھوں نے بتایا کہ "اس معاملے کو بھی نئے سرے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ بہت خراب حالات میں رہ رہے ہیں جن کی یہاں نوکریاں اور کاروبار تھا ان کو واپس لا کر بحال کیاجانا چاہیے۔"
سینٹ انسانی حقوق کی کمیٹی کے رکن اور بلوچستان نینشل پارٹی (ایم) کے سینیٹر جہاں زیب جمال دینی نے کہا کہ کمیٹی ہزارہ برداری کے افراد کی جان و مال کو درپیش خطرات کا احاطہ کرکے ان کے تدارک کے لیے مناسب سفارشات تجویز کرے گی۔
پاکستان کی ہزارہ برداری گزشتہ کئی سالوں سے عدم تحفظ کا شکار چلی آرہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ان کی جان و مال کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے باوجود ان کی برداری کے افراد کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی سیکورٹی اداروں، سیکرٹری داخلہ حکومت بلوچستان اور پولیس حکام سے ہزارہ برادری کے افراد کے خلاف ہونے والے واقعات کی رپورٹ طلب کر رکھی ہے۔