حفاظتی ضمانت مسترد ہونے پر، پاکستانی آئی ٹی کمپنی ’ایگزیکٹ‘ کے چیف ایگزیٹو افسر شعیب شیخ کو منی لانڈرنگ کیس میں ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے ملزم کی بریت کیخلاف ایف آئی اے کی درخواست منظور کر لی ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ شعیب شیخ سمیت تمام ملزمان کے خلاف سیشن عدالت میں دوبارہ مقدمہ چلا کر تین ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔
سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے کیس میں ملزم کی حفاظتی ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے شعیب شیخ کو عدالت سے باہر نکلتے ہی گرفتار کر لیا۔ عدالت نے حفاظتی ضمانت کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی تھی کہ درخواست میرٹ پر پوری نہیں اُترتی۔
اس سے قبل، ایف آئی اے کی اپیل کی سماعت کے دوران ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ منی لانڈرنگ کیس میں نامزد تمام ملزمان کے خلاف سیشن کورٹ میں دوبارہ ٹرائل ہوگا اور ملزم شعیب شیخ تین مارچ کو ماتحت عدالت میں پیش ہوں گے۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں سیشن عدالت کو ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے اور مقدمے کا فیصلہ تین ماہ میں کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
کیس کے دیگر ملزمان میں چندا ایکسچینج کے محمد یونس اور جنید بھی شامل ہیں۔ ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے 116 چیکس کے ذریعے 17 کروڑ سے زائد پاکستانی روپے حوالہ کے ذریعے غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل سلمان طالب الدین نے کیس میں دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمان شعیب شیخ کی ہدایت پر اکاؤنٹ آپریٹ کرتے تھے۔ استغاثہ کے مطابق ملزمان نے کراچی اور اسلام آباد سے دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں فروخت کیں اور ان سے حاصل شدہ رقم دبئی میں ملزم شعیب شیخ کی والدہ کے ’فارن کرنسی اکاونٹ‘ میں جمع کرائی جو وہاں سے شعیب شیخ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی اور پھر اس سرمائے کو پاکستان لایا گیا۔
سرکاری وکیل کے مطابق شعیب شیخ اپنی والدہ کے دونوں اکاونٹس خود ہی آپریٹ کرتے تھے۔
دوسری جانب ملزم شعیب شیخ کے وکیل شوکت حیات اور شہاب سرکی ایڈوکیٹ نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے منی لانڈرنگ کا کیس اب تک ثابت نہیں کرسکی۔ بقول اپن کے، شعیب شیخ کے خلاف حوالہ کیس بنتا ہی نہیں۔ تمام رقوم قانونی طور پر منتقل کی گئی ہیں۔ اسی وجہ سے سیشن عدالت نے ملزمان کو بری کیا تھا۔
ہائی کورٹ نے سیشن عدالت کی جانب سے شعیب شیخ اور دیگر کو بری کئے جانے کے فیصلے کے خلاف ایف آئی اے کی اپیل منظور کرتے ہوئے کیس دوبارہ سیشن عدالت منتقل کرنے اور تین ماہ میں کیس نمٹانے کا حکم دیا ہے۔
شعیب احمد شیخ اور ان کی اہلیہ سمیت کمپنی دیگر اعلیٰ عہدیدارن کے خلاف مبینہ جعلی ڈگریوں کی فروخت کا الگ مقدمہ بھی ماتحت عدالت میں زیر سماعت ہے۔ ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے ملک میں اور بیرون ملک لوگوں سے فراڈ، دھوکے اور جعلسازی کے ذریعے رقم ہتھیائی جس کے بدلے انہیں وکالت، طب اور دیگر شعبوں کی جعلی ڈگریاں فروخت کی جاتی تھیں۔
شعیب شیخ اور ان کی کمپنی ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کرتی رہی ہے۔ اس الزام کے تحت وہ اور دیگر گیارہ ملزمان تقریبا ڈیڑھ سال جیل میں بھی رہے ہیں۔
شعیب شیخ کا مؤقف ہے کہ ان کی کمپنی 1996 سے پاکستان میں آئی ٹی کی صنعت سے وابستہ ہے اور ملکی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام کام جائز طریقے سے کر رہی ہے۔ کمپنی کے مطابق، انہیں اپنے میڈیا چینل ’بول‘ کو لانچ کرنے پر دیگر میڈیا گروپس کی جانب سے بدترین مخالفت کا سامنا ہے جسے وفاقی حکومت کے تحت چلنے والے بعض اداروں کی بھی درپردہ سرپرستی حاصل ہے۔ مبینہ جعلی ڈگری کیس میں شعیب شیخ ضمانت پر ہیں۔