جعلی تعلیمی اسناد جاری کرنے کے اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث پاکستان کی ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنی "ایگزیکٹ" کے سربراہ شعیب شیخ سمیت کمپنی کے سات اعلیٰ عہدیداروں کو پاکستان کی ایک عدالت نے سات جون تک جسمانی ریمانڈر پر وفاقی تحقیقاتی ادارے "ایف آئی اے" کے حوالے کر دیا ہے۔
شعیب شیخ کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ ’ایف آئی اے‘ کے حکام نے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزمان کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر اُن کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کریں۔
بدھ کو علی الصبح ’ایف آئی اے‘ نے کراچی میں ایگزیکٹ کے مرکزی دفتر پر چھاپا مارا اور حکام کے مطابق اس دوران کمپنی کے خلاف کافی شواہد ہاتھ لگے جن کی بنیاد پر اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔
ایف آئی اے سندھ کے ڈائریکٹر شاہد حیات نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’لاکھوں کی تعداد میں ڈگریاں ہیں اور طلبا کے کارڈز ہیں اور بھی کافی کچھ (مواد) ہے۔۔۔۔۔ میرے خیال میں ہمارے پاس ابھی بظاہر اتنے شواہد اکٹھے ہو گئے ہیں کہ ہم سجمھتے ہیں کہ ان کے خلاف کیس کر سکتے ہیں۔‘‘
رواں ماہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا تھا کہ ایگزیکٹ کمپنی جعلی تعلیمی اسناد کے کارروبار میں مبینہ طور پر ملوث ہے اور اس سے کمپنی نے غیر قانونی طور پر لاکھوں ڈالر کمائے ہیں۔
ایگزیکٹ کمپنی ایک بڑے میڈیا ہاؤس "بول" کی بھی مالک ہے جس نے گزشتہ ہفتے ہی اپنی آزمائشی نشریات کا آغاز کیا۔
جعلی تعلیمی اسناد کے اس معاملے کو لے کر ذرائع ابلاغ میں بھی خاصی گرما گرم بحث جاری ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان یہ کہہ چکے ہیں کہ بعض شواہد ملنے پر اس کمپنی سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے امریکی تحقیقاتی ادارے "ایف بی آئی" اور انٹرنیشنل پولیس "انٹرپول" سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے۔
جعلی ڈگریوں کے علاوہ اس کمپنی کے خلاف مبینہ طور پر غیرقانونی طریقے سے رقوم کی منتقلی کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔