پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جعلی ڈگریوں کے اسکینڈل کی خبریں منظرِ عام پر آنے کے بعد اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ملک کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے 10 روز میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔
واضح رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر ہزاروں کی تعداد میں برطانونی شہریوں نے پاکستان سے جعلی ڈگریاں خریدیں اور یہ ڈگریاں لاکھوں پاؤنڈ ادا کر کے خریدی گئیں۔
ان جعلی ڈگریوں کے خریداروں میں برطانیہ میں صحت کی سہولت فراہم کرنے والے ادارے 'نیشل ہیلتھ سروسز' کے معاونین، نرسیں اور دیگر اہم افراد بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جمعے کو اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہایت شرمندگی کی بات ہے کیوں کہ مبینہ جعلی ڈگریوں کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر میں بدنام ہو رہا ہے اور ملک کی بدنامی کا باعث بننا والا بچ نہیں سکے گا۔
چیف جسٹس نے 'ایف آئی اے' کے سربراہ سے کہا ہے کہ وہ جعلی ڈگری کے معاملے کی تحقیقات کر کے رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ اگر یہ خبریں درست ہیں تو اسکینڈل کی روک تھام کی جائے، دوسری صورت میں پاکستان کو اپنا دفاع کرنا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق ایک بڑی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی ہونے کا دعویٰ کرنے والی 'ایگزیکٹ' نامی پاکستنای کمپنی سیکڑوں کی تعداد میں جعلی یونیورسٹیوں کا نیٹ ورک کراچی سے ایک کال سینٹر کے ذریعے چلا رہی ہے۔
ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں پہلے بھی منظرِ عام پر آتی رہیں کہ ایگزیکٹ جعلی ڈگریاں فرخت کرنے میں مبینہ طور پر ملوث ہے۔
مئی 2015ء میں امریکہ کے مؤقر اخبار نیویارک ٹائمز نے پہلی بار یہ انکشاف کیا تھا کہ ایگزیکٹ کمپنی جعلی تعلیمی ڈگریوں کے کارروبار میں ملوث ہے اور اس غیر قانونی کاروبار سے کمپنی نے مبینہ طور پر لاکھوں ڈالر کمائے۔
اس انکشاف کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اس کمپنی کے کراچی اور اسلام آباد میں واقع دفاتر پر چھاپے مار کر وہاں سے سادہ جعلی ڈگریوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ کمپیوٹرز بھی قبضے میں لے لیے تھے جب کہ اس کمپنی کے سربراہ شعیب احمد شیخ سمیت متعدد دیگر عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا تھا۔
بعدازاں شعیب شیخ کو عدالت کے حکم پر ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
سماجی حلقوں کا مطالبہ رہا ہے کہ جعلی ڈگری اسکینڈل کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ بین الاقوامی برادری میں متاثر ہوئی ہے اور اس معاملے کی مکمل اور جامع تحقیقات ہونی چاہئیں۔
ایگزیکٹ کے بارے میں نئی خبریں سامنے آنے کے بعد کمپنی نے جعلی ڈگریوں کے الزمات کو مسترد کرتے ہوئے ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔