|
امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کا یہ بیان، کہ پاکستان نے ایک ایسی کارآمد میزائل ٹیکنالوجی تیار کر لی ہے جو اسے امریکہ کو بھی نشانہ بنانے کے قابل بنائے گی' ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں اور زرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب صرف دو روز قبل بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے لیس طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام سے مبینہ طور پر وابستہ چار اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
ان اداروں میں نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) بھی شامل ہے، جو اس میزائل پروگرام کی نگرانی کرنے والا سرکاری ادارہ ہے۔
امریکہ کی جانب سے پابندیوں اور حالیہ بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ واشنگٹن میں پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے تشویش میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلقہ اداروں اور سپلائزر پر امریکی پابندیوں کا سلسلہ نئی بات نہیں ہے بلکہ صرف رواں سال میں تیسری مرتبہ بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کی معاونت کے الزام میں چار اداروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
تاہم حالیہ عرصے میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے پاکستان کے میزائل پروگرام کو امریکہ کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا ہے۔
جان فائنر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان نے ایک ایسی ’کارآمد میزائل ٹیکنالوجی‘ تیار کر لی ہے جو اسے امریکہ کو بھی نشانہ بنانے کے قابل بنائے گی۔
تاہم پاکستان نے اس امریکی اقدام کو ’مایوس کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ امریکی پابندیوں کا مقصد خطے میں عسکری عدم توازن کو بڑھاوا دینا ہے۔
پاکستان کے میزائل پر امریکہ کو تشویش کیوں ہے؟
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام کے بارے میں امریکہ کی تشویش کس حد تک حقیقت پسندانہ ہے اور کیا واقعی پاکستان کا بیلسٹک میزائل امریکہ کو ہدف بنا سکتا ہے۔ اور یہ کہ امریکی پابندیاں پاکستان کے میزائل پروگرام کو کیسے متاثر کر سکتی ہیں۔
واشنگٹن کی ڈیفنس یونیورسٹی سے وابستہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور کتاب 'پاکستان کا ایٹم بم' کے خالق پروفیسر حسن عباس کہتے ہیں کہ نیوکلیئر اور بیلسٹک میزائل پروگرام امریکی پالیسی میں اہم ترین معاملہ ہے اور واشنگٹن کو اس حوالے سے ہمیشہ تشویش رہتی ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملک حلیف رہے ہیں اور اس قسم کے سخت بیانات کسی کے مفاد میں نہیں ہوں گے۔
حسن عباس کہتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کو چاہئیے کہ وہ عوامی سطح پر بیان بازی کی بجائے شراکت دار اداروں کے درمیان بات چیت کو نتیجہ خیز بنائیں۔
امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان طویل عرصے سے امریکہ کا پارٹنر رہا ہے اور وہ مشترکہ مفادات پر پاکستان کے ساتھ مزید کام کرنے کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ہمارے نزدیک یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ پاکستان ایسی صلاحیت کیوں حاصل کر رہا ہے جو ہمارے خلاف استعمال ہو سکے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان ہمارے اور بین الااقوامی برادری کے خدشات کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام ہوا ہے۔‘
دفاعی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان کے میزائل پروگرام سے متعلق امریکہ کی تشویش حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا میزائل پروگرام پاکستان سے زیادہ طویل فاصلے تک ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن واشنگٹن کو اس پر کبھی کسی قسم کی تشویش نہیں ہوئی۔
وہ کہتی ہیں کہ اسی لئے امریکہ کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام سے وابستہ کمپنیوں پر پابندی متعصبانہ ہے اور پاکستان کے پالیسی ساز واشنگٹن کی اس تشویش کو اہمیت نہیں دیتے۔
ہما بقائی نے کہا کہ پاکستان اپنے میزائل پروگرام کو فل سپیکٹرم ڈیٹرنس کی طرف اس وقت لے کر گیا ہے جب بھارت نے اپنے میزائل پروگرام کے پاکستان کو مدِ نظر رکھ کر تجربات کئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا میزائل پروگرام اپنے دفاع کے لئے ہے نہ کہ جارحیت کے لئے اور اسلام آباد نے دنیا پر واضح کر رکھا ہے کہ بھارتی ڈاکٹرائن اس کی بقاء کے لئے خطرہ ہے۔
قومی سلامتی کے امور کے ماہر سید محمد علی کہتے ہیں کہ پاکستان پر امریکی حکام کا حالیہ الزام تکنیکی حقائق سے متصادم ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تزویراتی اور ایٹمی معاملات کے حوالے سے دنیا میں صف اول کے تھنک ٹینک سے خطاب میں اس قسم کا بیان افسوسناک ہے جو کہ پاکستان اور امریکہ کے قریبی تعلقات پر منفی اثرات چھوڑ سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ معاون نائب مشیر برائے قومی سلامتی کا بیان حقائق کے مقابلے میں امریکہ کی سیاسی صورتحال سے متعلق خدشات سے جڑا لگتا ہے۔
سید محمد علی کے بقول پاکستان کے بیلسٹک میزائلوں میں ہونے والی جدت کا مقصد کسی دور دراز ملک کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ بھارت کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے میزائل دفاعی نظام کو ناکام بنانا ہے۔
کیا پابندی سے میزائل پروگرام متاثر ہو گا؟
امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام پر پابندیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ 1970 کی دہائی سے چلا آرہا ہے۔
حالیہ پابندیوں میں رواں سال اپریل میں چین کی تین اور بیلاروس کی ایک کمپنی جبکہ اکتوبر 2023 میں پاکستان کو بیلسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اور سامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین مزید کمپنیوں پر اسی طرح کی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
اس کے علاوہ دسمبر 2021 میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کے لیے مبینہ طور پر مدد فراہم کرنے کے الزام میں 13 پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں سے کیا پاکستان کا میزائل پروگرام متاثر ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں پروفیسر حسن عباس کہتے ہیں کہ پاکستان طویل عرصے سے طویل اور محدود فاصلے پر اہداف کو نشانہ بنانے والے میزائل بنا چکا ہے لہذا پابندی سے یہ عمل رک نہیں جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کو دنیا کے کسی ملک کے میزائل پروگرام پر ،جس کی حد امریکہ یا اس کے کسی اہم اتحادی ملک تک پہنچ رہی ہو ، تشویش ہوتی ہے۔
ہما بقائی کے بقول ایسا لگتا ہے کہ امریکہ بھارتی لابی کو خوش کرنے یا پاکستان پر سیاسی دباؤ بڑھانے کے لئے میزائل پروگرام پر پابندیوں جیسے اقدامات لے رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ان پابندیوں کا عملی طور پر پاکستان کے میزائل پروگرام پر زیادہ اثر نہیں ہوگا کیونکہ اسی قسم کی پابندیوں کے باوجود پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام بھی مکمل کرنے میں کامیاب رہا تھا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے یہ رویہ پاکستان کو نئی صف بندی میں واشنگٹن سے دور دھکیل دے گا کیونکہ میزائل پروگرام ملک کی سلامتی کا معاملہ ہے اور اسلام آباد کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا کہ وہ دوسری جانب دیکھے۔
ہما بقائی نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے بعد یہ بات اور واضح ہوگئی ہے کہ اگر کوئی ملک اپنا دفاع نہیں کرسکتا تو اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں آپ کی مدد کو نہیں آئیں گی لہذا پاکستان اپنے دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا ہے۔
سید محمد علی کہتے ہیں کہ پچھلے 45 سال میں بے شمار امریکی پابندیاں پاکستان پر لگتی رہی ہیں اور یہ بات سب کے سامنے ہے کہ واشنگٹن نے سفارتی و سیاسی دباؤ ڈالنے کے لئے اس قسم کی پابندیوں کا سہارا لیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں پابندیوں کے ایسے اقدامات کارگر ثابت نہیں ہوئے بلکہ ان کے دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثرات پڑے۔
سید محمد علی نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آنے والی ٹرمپ انتظامیہ اس قسم کے غیر سنجیدہ اقدامات پر بروقت نظر ثانی کرے گی تاکہ امریکہ کی عالمی سطح پر زمہ دارانہ ساکھ بحال ہوسکے اور جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کے حوالے سے پاکستان کے خدشات کو دور کیا جاسکے۔
پاکستان کا میزائل پروگرام کیا ہے؟
ماہرین کہتے ہیں کہ شاہین تھری اور ابابیل پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں سب سے بہترین صلاحتیوں والے میزائل سسٹمز ہیں۔
درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل شاہین تھری 2750 کلومیٹر تک ہدف بنا سکتا ہے اور ابابیل 2200 کلومیٹر تک پہنچ سکتا ہے اور یہ دونوں میزائل ملٹیپل ری انٹر وہیکل یا ایم آر وی کہلاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق امریکہ کو زیادہ شکایت بھی انہی دونوں بیلسٹک میزائل شاہین تھری اور ابابیل سے ہے۔ اور امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے نیشنل کمپلیکس کے بارے میں بھی واشنگٹن کا الزام ہے کہ این ڈی سی شاہین سیریز کے میزائلوں سمیت پاکستان کے دیگر بیلسٹک میزائلوں کی تیاری میں ملوث ہے۔
پاکستان نے 2017 میں ابابیل میزائل کا پہلا تجربہ کرنے کے بعد گذشتہ برس 18 اکتوبر 2023 کو بھی زمین سے زمین پر درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے ابابیل میزائل کی ایک نئی قسم کا تجربہ کیا تھا جس کے بعد رواں برس 23 مارچ کو پاکستان ڈے پریڈ کے موقع پر پہلی مرتبہ اس کی نمائش کی گئی۔
سید محمد علی بتاتے ہیں کہ پاکستان کے دو میزائل ابابیل اور شاہیں تھری کی زیادہ سے زیادہ پہنچ 2750 کلومیٹر بتائی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان بھارت کے علاوہ کسی دور افتادہ ملک پر حملے کی ضرورت محسوس کرتا ہے نہ اس کی خواہش رکھتا ہے۔۔
انہوں نے کہا کہ ابابیل ایک سے زائد وار ہیڈز لے جاسکتا ہے جس کے زریعے بھارت کے میزائل ڈیفنس سسٹم کو موثر انداز میں ناکام بنایا جاسکتا ہے اور یہ میزائل صلاحیت رکھتا ہے کہ بھارت کے کثیر سطحی میزائل دفاعی نظام کے ہوتے ہوئے ہدف تک پہنچ سکے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی اس ٹیکنالوجی میں بہتری کا مقصد صرف اور صرف بھارت کے جدید میزائل دفاعی نظام (جیسے ایس-400) کو ناکام بنانا ہے، نہ کہ کسی اور ملک کو نشانہ بنانا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے ابھی تک طویل فاصلے تک مار کرنے والے کسی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) کا تجربہ نہیں کیا، جبکہ بھارت 5000 کلومیٹر سے زیادہ رینج والے میزائل تیار اور ٹیسٹ کر چکا ہے
انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ وہ امریکہ و یورپ کو ایٹمی ہتھیار سے نشانہ بنا سکے اور بھارت کے پاس اس وقت بھی دو ایٹمی بیلسٹک میزائل نیوکلیئر سب میرین ہیں جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ امریکی بندرگاہوں تک پہنچا کر کسی بھی امریکی ریاست پر حملہ کرسکیں۔
سید محمد علی کے مطابق، پاکستان کے لیے امریکہ کو نشانہ بنانے کا تصور معاشی اور سیاسی لحاظ سے ناقابل عمل ہے۔ اور امریکی عہدیدار کا یہ بیان غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ پاکستان امریکہ پر حملہ کرسکتا ہے۔
فورم