پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے ایک دور دراز علاقے میں ہفتہ کی شام پولیس تھانے پر مشتبہ طالبان عسکریت پسندوں کے حملے میں کم از کم دس اہلکار اور چھ حملہ آور ہلاک ہوگئے۔
مقامی حکام نے بتایا کہ خودکارہتھیاروں اور دستی بموٕ ں سے لیس برقعہ پوش عسکریت پسندوں نے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی کے پولیس تھانے پراچانک دھاوا بول کرعمارت میں موجود عملے کو یرغمال بنا کر مورچہ بندی کرلی۔
لیکن پولیس کے مطابق اس کوشش کو ناکام بنادیا گیا اور تمام حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا۔ البتہ آپریشن کے دوران حکام نے کم ازکم دس پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ تھانے پرسرکاری کنٹرول دوبارہ بحال ہو چکا ہےاورلڑائی میں زخمی ہونےوالے گیارہ اہلکاروں کو ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برقعہ پوش عسکریت پسند پوری تیاری کے ساتھ آئے تھےاوران کا منصوبہ یرغمالیوں کو تھانے کے اندر کئ روز تک قید میں رکھ کر اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ منوانا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ حملہ آوروں میں خودکش بمبار بھی تھے اورجونہی آپریشن کے دوران پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی تھانے کی عمارت کے اندر داخل ہوئی تو دو خودکش بمباروں نے اپنے آپ کو دھماکے سے اُڑا دیا جبکہ ان کے تیسرے ساتھی کوہلاک کردیا گیا۔
حکام کے مطابق تھانے کی نصف سے زائد عمارت تباہ ہو گئی اور ملبے سے پولیس کو تین حملہ آوروں کی لاشیں جبکہ تین خودکش بمباروں کے سر بھی ملے۔ مقامی پولیس افسران کے مطابق ایک خاتون خودکش بمبار بھی حملہ آوروں شامل تھی ۔
برقعہ پوش عسکریت پسندوں کے کچھ ساتھیوں نے تھانے کے مرکزی دروازے پر پہنچتے ہی پہلے وہاں پہرے پرموجود پولیس اہلکاروں ہلاک کیا جس کے بعد عمارت کی بیرونی دیوار کو دستی بموں سے تباہ کر کےاپنے دوسرے ساتھیوں کے لیے اندر داخل ہونے کا راستہ بنایا۔
حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کے ساتھ کئی گھنٹوں تک فائرنگ کے تبادلے میں عسکریت پسندوں کے پاس گولیاں اور دیگربارود ختم ہوگیا جس کے بعد انھوں نے اندر موجود پولیس اہلکاروں کو بہت دیر تک یرغمال بنا ئے رکھا۔
پولیس کو شبہ ہے کہ حملہ آور جنوبی وزیرستان سے آئے تھے کیونکہ تھانے کی عمارت اس پاکستانی قبائلی علاقے کی سرحد کے قریب واقع ہے۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ٹیلی فون کر کے احسان اللہ احسان نامی طالبان کے ایک ترجمان نے پولیس تھانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے قتل کا بدلہ لینے کی کارروائیوں کا حصہ ہے۔
پاکستان میں گزشتہ پانچ برس کے دوران ہزاروں افراد طالبان اور ان کی حامی شدت پسند تنظیموں کے حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ دو مئی کو ایبٹ آباد میں خفیہ امریکی حملے میں بن لادن کی ہلاکت کے بعد عسکریت پسندوں نے ان کارروائیوں کو تیز کردیا ہے۔