اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے کہا ہے کہ اختتام ہفتہ کی حالیہ چھٹیوں کے دوران تقربیاً 9000 ہزار تارکین وطن کو بحیرہ روم میں ڈوبنے سے بچایا گیا ۔ جن میں سے زیادہ تر تارکین وطن افریقی تھے اورانسانی اسمگلر انہیں شکستہ اور ناقابل بھروسہ کشتیوں میں لیبیا سے اٹلی کے ساحلو ں کی جانب لے جار رہے تھے۔
تارکین وطن کے بین الاقوامی ادارے آئی او ایم نے کہا ہے کہ یہ افراد ، جن میں سے اکثر نائیجیریا اور سینگال سے آئے تھے اور کچھ کا تعلق بنگلہ د یش سے تھا، تقریباً ان 20 ہزار تارکین وطن میں شامل ہیں جنہیں جرائم پیشہ گروہوں نے لیبیا میں بے قاعدہ حراستی مراکز میں رکھا ہوا تھا۔
اسمگلر انہیں رقم کی ادائیگی کے بعد عموماً ربڑ کی بنی ہوئی ایسی ناپائیدار کشتیوں میں بیٹھا دیتے ہیں جو بحیرہ روم عبور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔
تارکین وطن ان ناقابل بھروسہ کشتیوں میں یورپ میں نئی زندگی کی شروعات کی امید پر انتہائی دشوار اور پرخطر سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔
تارکین وطن کے بین الاقوامی ادارے کے ترجمان لیو نارڈ ڈویل نے جنیوا میں منگل کے روز ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ یقینی طور پر بہار کے بہتر موسم نے اسمگلروں کو یہ حوصلہ دیا وہ تارکین وطن کو اپنے حراستی مراکز سے نکال کر اس امید پر کشتیوں میں بیٹھائیں کہ امدادی ٹیمیں انہیں سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیں گی۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے لیے ہائی کمشنر نے بتایا کہ سمندر میں بھٹکنے والی ناپائیدار کشتیوں پر سوار تارکین وطن کو بچانے کے لیے 35 سے زیادہ بحری جہازوں نے حصہ لیا جن میں پرائیویٹ امدادی کشتیاں، یورپی یونین کی سرحدی نگرانی کے ادارے ، اٹلی اور لیبیا کے ساحلی محافظ اور 12 تجارتی جہاز شامل تھے۔
یواین ایچ سی آر کے ترجمان بابر بلوچ کا کہنا تھا کہ تارکین وطن کی تلاش اور ان کی جان بچانے کی اس مہم میں تمام فریقوں نے سرگرمی سے حصہ لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یورپ اور وہاں کی حکومتوں سے ایک بار پھر یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی زندگیاں بچانے کے لیے آگے آئیں۔اب تک اس خلا کو این جی اوز بھر رہی ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سال اب تک کم ازکم 900 تارکین وطن یا تو بحیرہ روم میں سفر کے دوران ہلاک ہوچکے ہیں یا وہ ابھی تک لاپتا ہیں، جب کہ جمعرات اور اتوار کے دوران 97 افراد لا پتا ہوئے ہیں جن میں سے 18 کی نعشیں ڈھونڈلی گئی ہیں۔
ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ پچھلے سال 24 ہزار تارکین وطن کی جان بچائی گئی تھی جب کہ اس سال اب تک تقریباً 36 ہزار افراد کو سمندر میں ڈوبنے سے بچایا جا چکا ہے۔