افریقہ کے بعض ممالک میں جیسے جیسے کرونا وائرس پھیل رہا ہے۔ چوہوں کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔
افریقی ملک ملاوی کے دو بڑے شہروں بلنتائر اور لی لانگ وے کو ملانے والی شاہراہ پر اکثر مقامات پر ٹین اور لکڑی کے اسٹال نظر آتے ہیں جہاں دہکتے کوئلوں پر چوہوں کے کباب تیار کیے جا رہے ہوتے ہیں۔
چوہے کا کباب 25 سینٹ سے ایک ڈالر تک مل جاتا ہے۔ قیمت کا انحصار اس کے سائز اور وزن پر ہے۔
ملاوی کی نصف سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ان کی آمدنی بہت محدود ہے۔ وہ گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے وہ گوشت کی ضرورت چوہوں سے پوری کرتے ہیں۔
اب تو ملاوی کی حکومت بھی چوہے کھانے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔
ملاوی کی وزارتِ صحت کے غذائیت سے متعلق ایک اعلیٰ عہدے دار سیلوستار کاتھمبا نے کہا ہے کہ چوہے پروٹین حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔
ان کے بقول کرونا وائرس کے دنوں میں اپنی صحت برقرار رکھنے کے لیے ان کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔
محکمۂ صحت کے عہدے دار دیہاتوں میں جا کر چوہے پکڑنے اور کھانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ وہ انہیں کہہ رہے ہیں کہ چوہے صحت کے لیے ضروری اجزا حاصل کرنے کا قدرتی ذریعہ ہیں۔ انہیں پکڑنے پر کچھ خرچ بھی نہیں آتا۔ چوہے کھائیں اور کرونا کا مقابلہ کریں۔
ملاوی میں اب تک کرونا وائرس سے ساڑھے پانچ ہزار افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ جب کہ اموات کی تعداد 170 ہے۔ ماہرین کے مطابق ممکن ہے کہ کرونا متاثرین کی تعداد زیادہ ہو کیوں کہ اس غریب افریقی ملک میں وائرس کی ٹیسٹنگ کا مناسب انتظام نہیں ہے۔
ملاوی کی آبادی کا ایک بڑا حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔ یہاں زیادہ تر مکئی کاشت کی جاتی ہے۔ چوہے اور انسان اسی فصل پر پلتے ہیں۔ جب فصل کٹ جاتی ہے تو کسان زمین صاف کرنے کے لیے کھیت کو آگ لگا دیتے ہیں جس سے ماحول تو متاثر ہوتا ہے لیکن چوہوں کے بل بھی نظر آ جاتے ہیں۔ پھر نئی فصل تیار ہونے تک کسانوں اور چوہوں میں چوہے بلی کا کھیل جاری رہتا ہے۔
کرونا وائرس سے غربت کے شکار اس ملک میں معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ کاشت کاروں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی آمدنی کم ہوئی ہے جس سے کئی ایک کے لیے دو وقت روٹی کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔
ملاوی کی حکومت نے روزگار سے محروم ہونے والوں کی مدد کے لیے 50 ڈالر مہینے کا خرچ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ رقم جون سے ملنا تھی۔ حکومت اب تک امدادی رقم کی فراہمی کا بندوبست تو نہیں کر سکی مگر چوہے کھانے کی یہ کہتے ہوئے حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ آپ انہیں مفت پکڑ سکتے ہیں اور اپنی خوراک کی کمی پوری کر سکتے ہیں۔
ملاوی کا وسطی ضلع نچیو کرونا وائرس سے بری طرح متاثر ہوا ہے جس سے کم آمدن والے خاندانوں کی زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے۔ 38 سالہ برناڈ سائمن بھی کاشت کار ہیں۔ انہیں اپنی بیوی اور بچے کا پیٹ پالنے کے لیے چھابڑی بھی لگانی پڑتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آمدنی بہت کم ہو گئی ہے۔ ہمارے پاس چوہے کھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ کیوں کہ میں انہیں کچھ خرچ کیے بغیر پکڑ لیتا ہوں۔
دیہی علاقے بلانکا کے 50 سالہ لوکس باندا گلوکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بچپن سے ہی چوہے پکڑ رہا ہوں۔ باندا اپنے علاقے کی ضلعی اسمبلی کے دو بار رکن رہ چکے ہیں۔
ماضی کو یاد کرتے ہوئے باندا بتاتے ہیں کہ مجھے تین سال کی عمر میں ہی چوہے پکڑنا سکھا دیا گیا تھا۔ چوہے پکڑنا اور کھانا ہمارے گاؤں کی ثقافت ہے۔ حتیٰ کہ اگر کھانے میں بیف موجود بھی ہو تو بھی سب سے پہلے چوہے کا کباب کھانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
کرونا وائرس تو اب آیا ہے۔ ملاوی کی بڑی گزرگاہوں، قصبوں اور گاؤں کے گلی کوچوں میں چوہوں کے کبابوں کے خوانچے عشروں سے نظر آ رہے ہیں۔ جنہیں مرچوں کی چٹنی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔