پاکستان کی معیشت کو جہاں اِن دنوں کرونا وائرس کے بعد کسادی بازاری کا سامنا ہے۔ وہیں ٹڈی دَل کے حملو ں سے زرعی پیداوار اور اس سے منسلک زرعی معیشت کو خطرات لاحق ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال پانچ کروڑ 70 لاکھ ایکڑ رقبہ ٹڈی دَل کے حملوں کی زد میں آیا جس میں سے دو کروڑ 30 لاکھ ایکڑ رقبہ زرعی تھا۔ زرعی رقبے پر گو کہ ٹڈی دَل کے حملے کے بعد نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے لیکن اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تحفظِ خوراک کے مطابق اگر پاکستان کی 25 فی صد زرعی پیداوار ٹڈی دَل سے متاثر ہوتی ہے تو ملک میں اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ معیشت کو پانچ ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔
ٹڈی دَل کے حالیہ حملوں سے زیادہ متاثر کپاس کی فصل ہوئی ہے جب کہ مکئی، جوار سمیت مختلف سبزیاں اور بلوچستان میں پھلوں کے باغات ٹڈی دَل کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
پاکستان میں زرعی زمین پر ایران، عمان، افریقی ممالک سمیت پاکستان کے صحرائی علاقوں میں نشوونما پانے والے ٹڈی دَل حملہ آور ہیں۔
زرعی ماہرین کے مطابق مختلف علاقوں میں بلوچستان میں موسم سرما کے دوران افزائش پانے والی ٹڈی دَل نے حملے کیے تھے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ہواؤں کا رُخ تبدیل ہونے کی وجہ سے ایران واپس نہیں جا سکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران سے آنے والے ٹڈی دَل بھی رواں ماہ میں کسی وقت پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں جو کہ پاکستان سے ہوتے ہوئے ہمسایہ ملک بھارت جائیں گے۔ جس کے بعد سردیوں سے پہلے ٹڈی دَل اپنے آبائی ممالک میں واپسی پر ایک بار پھر پاکستان میں خریف کی فصلوں پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔
ٹڈی دل سے متاثرہ رقبہ اور حکومتی کارروائی
وفاقی وزارت برائے تحفظ خوراک سے منسلک تحقیق کے ادارے پلانٹ پروٹیکشن کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ڈاکٹر فلک ناز کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر پاکستان میں تین لاکھ اسکوائر کلو میٹر کے رقبے پر ٹڈی دَل افزائش نسل کرتا تھا۔ تاہم اس سال یہ رقبہ بڑھ کر چار لاکھ 30 ہزار اسکوائر کلو میٹر تک پھیل گیا ہے۔
ڈاکٹر فلک ناز کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ٹڈی دَل تنگ صحراؤں تک بھی پہنچ گئے جب کہ پہلے ٹڈی دل چولستان اور سندھ کے نارا اور تھر پارکر تک پہنچتا تھا۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں تک اس کی رسائی تھی۔
ان کے بقول پاکستان میں پانچ کروڑ 70 لاکھ ایکڑ رقبے پر ٹڈی دَل حملہ آور ہوا۔ جس میں سے دو کروڑ 30 لاکھ ایکڑ رقبہ زرعی تھا جب کہ باقی حصہ صحرائی تھا۔ جہاں پر حکومت نے ٹڈی دَل کے خلاف کارروائی کی۔
ڈاکٹر فلک ناز کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹڈی دَل کی وجہ سے پاکستان کو فوڈ سیکیورٹی کے خطرات لاحق ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو ٹڈی دَل سے تین طرح کے خطرات لاحق ہیں۔ جن میں سب سے پہلے مقامی طور پر افزائش پانے والے ٹڈی دِل ہے۔ جس کے بعد ایران اور پھر عمان سے پاکستان ہجرت کر کے آنے والے ٹڈی دَل شامل ہیں جن کی آمد جون اور جولائی میں متوقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران سے آنے والے ٹڈی دَل سے کپاس کی فصل مکمل طور پر تباہ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ گنے، مکئی اور سورج مکھی کی فصلیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل پلانٹ پروٹیکشن کا مزید کہنا تھا کہ ایران سے آنے والے ٹڈی دَل سے سندھ کے علاقے سکھر، خیر پور، جام شورو، مٹیاری اور شہید بے نظیر آباد متاثر ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر فلک ناز نے مزید کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ سندھ میں تھر پارکر اور پنجاب میں چولستان کے صحرا میں ٹڈی دَل کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ان علاقوں میں جُھنڈ پہنچ کر ریتلی زمین میں انڈے دیں گے تو اُن پر اسپرے کیا جائے گا۔
ٹڈی دَل کے حملے اور مون سون بارشیں
پاکستان ایگریکلچر ریسرچ سینٹر (پی اے آر سی) میں ڈائریکٹر پلانٹ پروٹیکشن کے طور پر کام کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر اسحٰق مستوئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ موسم سرما شروع ہونے پر جب ٹڈی دل کا بھارت سے اپنے آبائی علاقوں کو واپسی کا سفر شروع ہو گا تو پاکستان میں گندم کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا دار و مدار سال کے آخر میں ہونے والی بارشوں پر ہو گا۔
اُن کے مطابق پچھلے سال مون سون بارشوں کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا تھا۔
مستقبل قریب میں ٹڈی دَل کے متوقع حملوں اور اس کے نقصانات کے بارے میں ڈاکٹر اسحٰق مستوئی کا کہنا تھا کہ اس کا دار و مدار اس سال مون سون کی بارشوں اور صحراؤں میں ٹڈی دَل کے خاتمے کے لیے صحراؤں میں کی جانے والی کارروائیوں پر منحصر ہے۔
ان کے بقول پاکستان جٖغرافیائی اعتبار سے بھارت اور ایران دو ایسے ممالک کے درمیان واقع ہے، جہاں ٹڈی دَل کی نشوونما ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان ہمسایہ ملک ایران کو پیسٹیسائزڈ فراہم کر رہا ہے تاکہ ایران میں ٹڈی دَل کے خلاف آپریشن کیا جا سکے۔ اسی طرح بھارت بھی پاکستان کو پیسٹیسائزڈ کی پیش کش کر رہا ہے۔
پاکستان پر متوقع ٹڈی دَل حملے
اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے پاکستان میں کنسلٹنٹ ڈاکٹر مبارک احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت حملہ آور ہونے والے ٹڈی دَل کی پرورش بلوچستان میں ہوئی ہے۔ جس نے جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ کے کچھ علاقوں میں حملے کیے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک احمد کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی صحرا اس وقت خشک ہیں جس کی وجہ سے ٹڈی دَل بھارت کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔
وسطی پنجاب میں ٹڈی دَل کے حملوں سے متعلق ڈاکٹر مبارک کا کہنا تھا کہ یہ حملے جنوبی پنجاب کے ان علاقوں میں ہوئے جہاں کپاس کے پودے ابھی چھوٹے تھے۔ جنہیں کاشت کاروں کو دوبارہ سے لگانا پڑے گا۔ ان کے بقول زیادہ نقصان نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تھر پارکر اور بھارت کے سرحدی صحرائی علاقوں میں افزائش کے بعد اپنے آبائی علاقوں کی طرف واپسی پر ٹڈی دَل موسم سرما کے آغاز میں پاکستان میں فصلوں پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت پاکستان میں فصلیں تیار ہوں گی۔
ڈاکٹر مبارک نے مزید کہا کہ رواں سال اکتوبر اور نومبر میں کپاس اور چاول کی فصلوں کو ٹڈی دَل کے حملوں سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان کو بنیادی طور پر چار خطرات لاحق ہیں۔ جن میں پہلا خطرہ بلوچستان میں افزائش پانے والی ٹڈی دَل سے ہے جو کہ پاکستان میں اپنا ابتدائی کام دکھا کر بھارت روانہ ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر مبارک کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دوسرا خطرہ ایران میں نشوونما پانے والے ٹڈی دَل کا ہے۔ جس میں اس سال کئی گناہ اضافہ ہو چکا ہے اور یہ پاکستان میں اب کسی وقت بھی حملہ آور ہو سکتا ہے جب کہ یہ حملہ کئی اقساط میں ہوگا۔ جس کا نشانہ تھر پارکر سمیت علاقے ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو تیسرا خطرہ عمان سے ہے۔ جہاں ٹڈی دل کے خلاف اچھی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔
جولائی میں افریقہ سے آنے والے ٹڈی دَل کے بارے میں ڈاکٹر مبارک کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس کے لیے بھی تیار رہنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران، عمان اور افریقہ سے آنے والے ٹڈی دَل سے پاکستان کو خطرہ تب ہوگا جب پاکستان نے انہیں صحراؤں میں ہی ختم نہ کر سکا۔ جہاں ان کی افزائشِ نسل ہوتی ہے۔