اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے خوراک اور زراعت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹڈی دل کے حملوں سے پاکستان میں ربیع اور خریف کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جس سے ملک کو رواں سال مجموعی طور پر چار ارب ڈالرز یا 669 ارب پاکستانی روپوں کا نقصان برداشت کرنا پڑسکتا ہے۔
پیر کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے خطرات میں یہ صورتِ حال غذائی تحفظ، مویشیوں کی بقا اور معاشرے کے سب سے کمزور طبقات کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مرتبہ ملک میں فصلوں کو لاحق خطرات 27 سال میں پہلی بار اس قدر زیادہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ٹڈی دل کے حملوں سے ربیع کی فصلیں یعنی گندم، چنا، روغنی بیج کو کم عرصے میں شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اندازے کے مطابق ٹڈی دل کے حملوں سے پاکستان کی 15 فی صد ربیع کی فصل ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ جس سے ملک کو مجموعی طور پر 205 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم اس سے بھی زیادہ نقصان خریف کی فصل میں ٹڈی دل کے حملوں کی صورت میں اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ جس کے نقصانات کا تخمینہ 464 ارب روپے لگایا گیا ہے جو کل فصل کا 25 فی صد تک ہوسکتا ہے۔
عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ مئی کے مہینے میں ٹڈی دل کی آبادیاں بلوچستان اور ایران کے جنوب مشرقی علاقوں کی جانب رخ کریں گی۔ جو پاکستان اور بھارت دونوں کے سرحدی علاقوں میں موجود ریگستانی علاقوں کو زیادہ متاثر کرسکتی ہیں۔
عالمی ادارے کے مطابق وقت سے پہلے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کی صورت میں ٹڈی دل کی یہ افواج وادی مہران سے ہوتی ہوئی تھرپاکر، نارا اور چولستان کے صحرائی علاقوں میں مون سون سیزن میں تباہی کا باعث بنیں گی۔
ٹڈی دل سے بچاؤ کے لیے پاکستان کے اقدامات
پاکستان میں وزرات برائے قومی تحفظ خوراک کے ماتحت کام کرنے والے ادارہ ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن ٹڈی دل سے بچاؤ کے اقدامات کرتا ہے۔
ادارے کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل محمد طارق خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں فصلوں کو ٹڈی دل کے حملے سے بچانے کے لیے قومی سطح پر ایک پلان تیار کیا گیا تھا جس پر عمل درآمد جاری ہے۔
اس پلان کی منظوری وزیر اعظم عمران خان نے جنوری میں دی تھی۔ ایکشن پلان کے تحت بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے صحرائی علاقوں کی مانیٹرنگ کا کام جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موسم بہار میں ٹڈی دل کی آبادیاں بلوچستان اور ایران کے بعض علاقوں میں اثر انداز ہوتی ہیں۔ مئی سے نومبر دسمبر تک ان کا رخ سندھ اور پنجاب کے صحرائی علاقوں کی جانب ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن تو نہیں لیکن ان کو کنٹرول کرنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ وہ فصلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث نہ بنیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومتی اقدامات سے غذائی تحفظ کا مسئلہ خطرناک حد تک نہیں جائے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال ان کے ادارے کی ٹڈی دل کے حملوں سے بچاؤ کی تیاری بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
طارق خان کے بقول چین کی جانب سے تین لاکھ لیٹر حشرات کش ادویات عطیہ کی گئی ہیں جس کی مالیت کئی ارب روپے بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال بھی اسپرے کے دوران ایک جہاز گرا اور عملے کے دو افراد کی جانیں بھی گئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل عام طور پر صحرائی علاقوں میں حملہ آور ہوتی ہیں لیکن اگر انہیں کنٹرول نہ کیا جائے تو یہ صحرائی علاقوں میں تباہی پھیلانے کے بعد فصلوں والے علاقوں میں بھی تباہی پھیلا سکتی ہیں۔
وفاق کے انتظامات ناکافی ہیں: وزیر زراعت سندھ
پاکستان کے صوبہ سندھ میں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر زراعت اسماعیل راہو کا کہنا ہے کہ ملک کے تین لاکھ کلو میٹر تک کے اندر ٹڈی دل موجود ہے۔
اُن کے بقول جس میں سے 35 فی صد علاقہ سندھ کا ہے جو بے حد متاثر ہو رہا ہے اور اس کا براہ راست اثر پاکستان کی غذائی ضروریات پر پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صوبے کے 15 اضلاع میں ٹڈی دل نے گزشتہ سال حملہ کر کے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ اس بار بھی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے واحد حل صرف ہوائی اسپرے ہی ہے جو صوبائی حکومت کی کوششوں سے صرف 46 ہزار ایکڑ تک ہی اسپرے کیا جا سکا ہے۔
اسماعیل راہو کے مطابق وفاقی حکومت اس معاملے میں سنجیدگی نہیں دکھا رہی۔ غذائی تحفظ سے جڑے اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے صرف چند گاڑیاں اور بہت کم افرادی قوت وفاقی حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحرائی علاقوں میں اسپرے کے لیے جہاز فراہم کیے جائیں تبھی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی یہ گلہ کر چکے ہیں کہ وفاقی حکومت اس معاملے پر سندھ کی کوئی مدد نہیں کر رہی۔
البتہ وفاقی وزارت تحفظ خوراک کا کہنا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے زراعت سے متعلق پالیسی اپنانے میں خودمختار ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال ملک میں ٹڈی دل کے حملوں کے بعد قومی ایمرجنسی نافذ ہے جس کے تحت ایک قومی ایکشن پلان تیار کیا گیا تھا۔ جس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) صوبائی حکومتوں کے زراعت کے محکمے اور افواج پاکستان نے مل کر کوششیں کرنے پر اتفاق کیا تھا۔