پاکستان کی ایک سیاسی جماعت ’پختون خواہ ملی عوامی پارٹی‘ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کی طرف سے جاری اُس بیان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں کے دیرپا نتائج اور پائیدار امن کے لیے حکومت کو بھی بہتر طرز حکمرانی کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
’’آئی ایس پی آر کی جو پریس ریلیز ہے یہ آئین کی روح کے خلاف ہے یہ اختیار کس کو دیا گیا ہے کہ آئین کے بالادستوں کی بات کی جائے۔۔۔۔‘‘
محمود خان اچکزئی نے بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف صرف اُسی وقت ایک صفحے پر ہوں گے جب ملک میں آئین کی بالادستی ہو گی۔
’’میں نے اس ایوان میں کھڑے ہوکر بات کی تھی اگر دو شریف ایک صفحے پر ہوں گے تو ہم غیر مشروط حمایت کریں گے۔ میں اببھی یہ کہتا ہوں کہ دو شریف ایک صفحے پر ہوں گے تب ہی آئین بالادست ہو گا۔ اگر خدانخواستہ ان دو شریفوں کے درمیان گڑبڑ ہوئی تو میں سویلین شریف کے ساتھ (کھڑا) ہوں گا‘‘۔
محمود خان اچکزئی نے اس وقت عالمی سطح خصوصاً مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ روس بحیرہ کیسپین یا بحیرہ خزر اپنے بحری جہاز سے شاممیں میزائل داغ رہا ہے، عراق تباہ ہو رہا ہے جب کہ اُن کے بقول لیبیا اور مصر میں صورت حال خراب ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ان حالات پر پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے۔ ’’اُدھر داعش کی بات ہو رہی ہے۔ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کسی بھی ایسی خارجہ پالیسی کی حمایت نہیں کر یں گے جو یہاں (پارلیمان میں) نہیں بنائی جائے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اعتماد میں لیا جائے مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور بات کی جائے۔‘‘
دوسری جانب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان یہ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے کہا کہ حکومت کو طرز حکمرانی بہتر کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی کہا کہ اُنھیں توقع ہے کہ وزیراعظم فوج کے سربراہ کے پیغام کو سمجھیں گے اور اپنی کابینہ کو درست کریں گے۔
واضح رہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اس امر کی ضرورت پر زور دیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں کے دیرپا نتائج اور پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بھی بہتر طرز حکمرانی کے لیے ایسے ہی اقدامات کرے۔
منگل کو راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر میں کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ عسکری کمانڈروں نے انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد، وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں اصلاحات، مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے سمیت اُن تمام اُمور پر غور کیا جن سے ملک میں جاری آپریشنز کے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اجلاس میں ملک کی اندرونی سلامتی سے متعلق اُمور پر تفصیلی غور کیا گیا۔
بیان کے مطابق دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے جاری کارروائیوں پر فوج کو عوام کی طرف سے مکمل حمایت حاصل ہے۔
فوج کے عسکری کمانڈروں کے اعلیٰ ترین اجلاس کے بعد یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر مکمل اور بھرپور عمل درآمد کے حوالے سے بعض خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں خود وزیراعظم نوازشریف بھی کہہ چکے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کے حوالے سے کچھ صوبوں میں کام کی رفتار بہتر ہے جب کہ بعض میں پیش رفت بہت سست ہے۔
حکومت کی طرف سے تو کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد سامنے آنے والے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا البتہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے مقامی ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والے بیان میں کہا گیا کہ حکومت کا احتساب 2018ء کے انتخابات میں عوام ہی کریں گے۔
دریں اثنا؍ قومی اسمبلی نے آرمی ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری دفاع چوہدری جعفر اقبال نے آرمی ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل پیش کیاتھا، بل کے تحت فوجی عدالتوں میں پیش ہونے والے گواہوں اور پراسیکیوٹرز کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی میاں عبد المنان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ بل سینیٹ سے پہلے سے منظور ہو چکا ہے۔
" یہ وہ ہی بل جو پہلے سینٹ نے پاس کیا ہے، آج قومی اسمبلی نے اسے پاس کیا ہے اس میں دو تین وضاحتیں ضروری تھیں۔ گواہوں کو تحفظ دیا گیا ہے اس کے علاوہ وہ لوگ جو دہشت گردی اور خاص طور پر مذہبی دہشت گردی میںملوث ہیں ان کے مالی معاونین کو بھی پکڑا جائے گا۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ سال پشاو رمیں فوج کے زیر انتظام اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے میں طالب علموں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے مشاورت سے انسداد دہشت گردی کا قومی لائحہ عمل کی منظوری دی تھی، جس کے تحت ملک بھر میں دہشت گردوں اور اُن کے معاونین کے خلاف کارروائی جاری ہے۔