رسائی کے لنکس

لاہور: خواجہ سرا کو لیکچرر شپ کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت


خواجہ سرا فیاض اللہ
خواجہ سرا فیاض اللہ

لاہور ہائی کورٹ نے خواجہ سرا فیاض اللہ کو پنجاب پبلک سروس کمیشن (پی پی ایس سی) کے تحت امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو لیکچرار کی نشست کے لیے دوبارہ درخواست جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

بدھ کو لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت خواجہ سراؤں کے لیے کوٹہ مختص نہ کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس فیصل زمان نے 'پی پی ایس سی' کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست کیوں منظور نہیں کی؟

پنجاب پبلک کمیشن کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ لیکچرار کے لیے صرف مرد اور خواتین درخواست جمع کرا سکتے ہیں۔ اگر ہائر ایجوکیشن کمیشن اجازت دے تو اُنہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

دورانِ سماعت سیکشن افسر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ اُنہیں خواجہ سرا کی درخواست منظور کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔

درخواست گزار فیاض اللہ کے وکیل علی زیدی نے عدالت کو بتایا کہ اُردو لیکچرار کی آسامی کے لیے درخواست جمع کرائی گئی تھی جسے مسترد کر دیا گیا۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن اور ہائر ایجوکیشن کمیشن میں خواجہ سراؤں کو لیکچرار کی نشست کے حوالے سے کوئی گنجائش نہیں دی گئی۔

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی یہ پالیسی امتیازی سلوک ہے۔ یہ پالیسی خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کو سلب کر رہی ہے۔ درخوست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ بطور پاکستانی شہری اُنہیں بھی مقابلے کے امتحان کا اہل قرار دیا جائے۔

عدالتِ عالیہ لاہور نے تمام فریقوں کا مؤقف سننے کے بعد خواجہ سرا فیاض اللہ کو پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دے دی ہے۔

خواجہ سر فیاض اللہ کہتی ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ پوری خواجہ سرا برادری کے لیے بہت اہم ہے۔

خواجہ سراؤں سے متعلق تاثر بدلتی ٹرانس جینڈر کامیڈین
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:42 0:00

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سرا فیاض اللہ عرف فیضی نے کہا کہ سرکاری اداروں میں اب مردوں اور عورتوں کے ساتھ خواجہ سرا بھی کام کرتے نظر آئیں گے۔ اِس سے معاشرے کے عام افراد اور خواجہ سرا برادری میں فاصلے کم ہوں گے۔

فیاض اللہ کے مطابق وہ ایم فل کر چکی ہیں اور یہاں تک تعلیم حاصل کرنے میں اُن کے اہلِ خانہ نے کوئی مدد نہیں کی۔ اُن کے مطابق معاشرے اور اساتذہ نے بھی کبھی اُن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔ اُن کے ساتھ سارا تعاون صرف خواجہ سرا طبقے نے کیا ہے۔

خواجہ سرا فیاض اللہ نے بتایا کہ دورانِ تعلیم اور یہاں تک پہنچنے میں اُنہیں بہت سی مشکلات کا سامنا رہا۔ کہیں انہیں برے القابات سے پکارا جاتا تو کہیں گالیاں دی جاتیں، کہیں ہراساں کیا جاتا تو کہیں آوازے کسے جا رہے تھے۔

فیاض اللہ نے بتایا کہ وہ اُردو کی لیکچرار بننا چاہتی ہیں۔ معاشرے میں خواجہ سراؤں کو دھتکارا جاتا ہے۔ کیوں کہ لوگ باتیں کرتے ہیں۔ اُن کے خاندان والوں کو بھی اُن کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے شاید اُنہوں نے معاشرے کی اقدار کو دیکھتے ہوئے مجھے گھر سے نکال دیا۔

اُن کے بقول "میرے گھر والوں میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ مجھے قبول کر سکیں۔ میری اُس وقت عمر 13 سال تھی اور ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی۔"

خواجہ سرا فیض اللہ نے مزید بتایا کہ اُن کے والدین حیات ہیں اور کم و بیش ایک ماہ قبل اُن کا گھر والوں سے دوبارہ رابطہ ہوا ہے۔

فیض اللہ کے بقول اُن کی ایک بہن ماہرِ نفسیات ہیں۔ ایک بہن بینک میں ملازمت کرتی ہیں جب کہ ایک بہن سرکاری کالج میں پڑھاتی ہیں۔ بڑے بھائی الیکٹریشن ہیں جب کہ چھوٹے بھائی کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں۔

پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ابھی تک اُنہیں لاہور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ موصول نہیں ہوا۔ ہائی کورٹ نے جو ہدایات جاری کیں ہیں وہ صرف ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے ہیں۔

ترجمان نے اپنا نام نہ بتاتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک خواجہ سرا نے ہائی کورٹ سے رابطہ کیا تھا کہ اُردو لیکچرار شپ کے لیے خواجہ سراؤں کے لیے کوئی نشست نہیں رکھی گئی ہے۔ یہ صرف اُردو لیکچرار کی آسامی کے لیے ہے، باقی آسامیوں کے لیے نہیں ہے۔

ترجمان نے مزید بتایا کہ زیادہ تر جن آسامیوں کی تشہیر کی جاتی ہے اُن میں خواجہ سراؤں کا کوٹہ رکھا جاتا ہے۔ حال ہی میں لوکل گورنمنٹ کے محکمہ میں اِن کے لیے الگ نشستیں تھی اور باقی محکموں میں بھی آ رہی ہیں۔

خواجہ سراؤں کے لیے 'رانی کا مدرسہ'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:53 0:00

واضح رہے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن پنجاب حکومت کے تحت چلنے والا ایک آزاد ادارہ ہے۔ جس کے چیئرمین اور دیگر ممبران کی تعیناتی حکومت کرتی ہے۔ پی پی ایس سی صوبہ بھر میں سرکاری افسران کی خالی نشستوں پر تعیناتی کے لیے امتحانات لیتا ہے۔

'پی پی ایس سی' کسی بھی سرکاری ادارے کی جانب سے بھیجی گئی خالی نشستوں پر مقابلے کے امتحان کے تحت موزوں امیدوار کا انتخاب کر کے متعلقہ محکمہ کو سفارش کرتا ہے۔

یاد رہے پاکستان کی سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2011 میں حکومت کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈز جاری کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ووٹر فہرستوں میں بھی شامل کرے۔

XS
SM
MD
LG