سندھ حکومت نے صوبے کے تمام سرکاری شعبہ جات میں خواجہ سراؤں کے لیے ملازمتوں میں 0.5 فی صد کوٹہ مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خواجہ سراؤں کے لیے ملازمتوں میں 0.5 فی صد کوٹہ مختص کرنے پر حکام کا کہنا ہے کہ اس عمل سے صوبے بھر میں کئی ہزار خواجہ سراؤں کو سرکاری ملازمتیں مل سکیں گی۔
سندھ اس لحاظ سے ملک کا پہلا صوبہ بن گیا ہے جہاں خواجہ سراؤں کے لیے ملازمتوں میں باقاعدہ کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔
صوبائی کابینہ کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ سندھ بھر کے تمام سرکاری محکموں میں خواجہ سراؤں کو ملازمتیں دی جائیں گی۔
صوبائی حکومت خواجہ سراؤں کی تعلیمی قابلیت بڑھانے اور تکینکی تربیت بھی فراہم کرے گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل صوبائی حکومت نے پولیس میں بھی خواجہ سراؤں کے لیے 0.5 فی صد کوٹہ مقرر کرنے کا حکم دیا تھا، جس پر عمل درآمد کے لیے اقدامات شروع کیے جا چکے ہیں۔
'حکومت کا مقصد خواجہ سراؤں کو مفید شہری بنانا'
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس عمل کا مقصد خواجہ سراؤں کو معاشرے کے لیے مفید بنانا اور اُنہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہے، تاکہ یہ مفید شہری بن سکیں۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'جینڈر انٹرایکٹو الائنس' کی صدر اور بانی بندیا رانا نے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ مختص کرنے سے جہاں خواجہ سراؤں کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا وہیں معاشرے میں ان کی قبولیت کا احساس اور شعور بھی اجاگر کیا جا سکے گا۔
اس سوال پر کہ کوٹہ مختص کرنے پر خواجہ سراؤں کی کمیونٹی پر کیا مثبت اثرات پڑیں گے؟ بندیا رانا نے بتایا کہ سیکڑوں خواجہ سرا تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ایسے کام کرنے پر مجبور ہیں جنہیں معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
'خواجہ سرا سیکس ورکرز اور بھکاری بننے پر مجبور'
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بندیا رانا نے کہا کہ بہتر روزگار نہ ہونے کے باعث اکثر خواجہ سرا نجی تقریبات میں گانا گانے، رقص یا پھر سیکس ورکرز اور بھکاری بننے پر مجبور ہیں۔ روزگار کا حصول ان کی برادری کا دیرینہ مطالبہ تھا۔
اُن کے بقول، خواجہ سراؤں کو اگر روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ معاشرے اور ملک کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
بندیا رانا نے کہا کہ صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں کو بھی اسی سمت میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام ملازمتیں بلاامتیاز مکمل طور پر میرٹ پر خواجہ سرا برادری کے اہل افراد کو دی جائیں۔
پاکستان میں 10418 خواجہ سرا
ایک اندازے کے مطابق، پاکستان بھر میں خواجہ سراؤں کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب ہے، لیکن 2017 کی مردم شماری میں محض دس ہزار 418 افراد نے اپنی جنس خواجہ سرا لکھوائی ہے۔
ان اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر کے خواجہ سراؤں میں سے سندھ میں مقیم افراد کی تعداد 24 فی صد ہے۔ لیکن، خواجہ سراؤں کی تنظیمیں اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد اتنی تعداد ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
پاکستان کی پارلیمنٹ نے 2018 میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ایک بل بھی منظور کیا تھا جس کے تحت خواجہ سراؤں کو کسی بھی قسم کے امتیاز، ہراساں کرنے سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت اُنہیں قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس اور دیگر سرکاری دستاویزات کے حصول میں آسانیاں فراہم کی گئی ہیں، جبکہ ان افراد کی بہبود، صحت کی حفاظت، نفسیاتی تحفظ، تعلیم اور حتیٰ کہ جیلوں میں الگ کمرے جیسے حقوق دیے گئے ہیں۔
قانون کے مطابق، حکومت کو ان افراد کے لیے معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لیے آسان اقساط پر قرضے فراہم کرنے جیسی سہولیات فراہم کرنے کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ تاہم، خواجہ سراؤں کی تنظیم کے مطابق، اب تک ان میں سے بہت کم نکات پر ہی عمل شروع کیا گیا ہے۔